علی ساحل
صدائیں کون سُنتا ہے
صدائیں گونجتی رہتی ہیں گلیوں میں
کوئی آواز دیتا ہے
پسِ دیوار
اِک بڑھیا
پرانے عاشقوں کے نام لیتی ہے
مگر احساس سے عاری
زمانے میں
پرانی اپسراؤں کی صدائیں کون سُنتا ہے
صدائیں گونجتی رہتی ہیں گلیوں میں
ایس ایم ایس
اُسے مجھ سے
کوئی بھی بات کرنی ہو
کوئی قصّہ سُنانا ہو
کہانی کے کسی کردار کے جملے بدلنے ہوں
سوالوں کے
جوابوں کی ضرورت ہو
جوابوں میں
کسی انجان پہلو کی
کمی محسوس ہوتی ہو
کبھی آنکھوں کے گوشوں میں
نمی محسوس ہوتی ہو
اُسے مجھ سے
کوئی بھی بات کرنی ہو
زبانی کچھ نہیں کہتی
وہ لکھ کر بھیج دیتی ہے
ملبہ
میں بچپن میں
سبھی دُکھ
گھر کی دیواروں پہ لکھ دینے کا عادی تھا
مگر پردیس میں آکر
میں اپنے گھر کی دیواروں پہ روشن
سب دُکھوں کو بھُول بیٹھا ہوں
مجھے ماں نے بتایا ہے
کہ اب کی بارشوں میں
گھر کی دیواریں بھی روئی ہیں
سو گھر جا کر
مجھے دیوار پر
لکھی ہوئی
تحریر کا ملبہ اُٹھا نا ہے
اعتراف
بہت ہی خوبصورت ہو
تمہارا حُسن
قدرت کا
کوئی شاہکار ہے شاید
تمہارے حسن کے تانے
کبھی یوسف
کبھی لیلیٰ
کبھی سسی سے ملتے ہیں
یقیں جانو
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہوتی
اگر میں آئینہ ایجاد نا کرتا
تعارف
تم کیا جانو
جس کا نام علی ساحل ہے
سپنوں کی پاداش میں آنکھیں گِروی رکھ کر
کاغذ کے اِک ڈھیر پہ بیٹھا
سپنے چُنتا رہتا ہے
نظمیں بُنتا رہتا ہے
التجا
مرا کشکول مت چھینو
مرے محبوب کی آنکھیں
محبت کا تبرّک بانٹتی ہیں
اور مرا دامن دریدہ ہے
دیکھو وقت گزر جائے گا
تم نے جس سے
جو کچھ بھی کہنا ہے کہہ لو
یوں نہ ہو کہ
اب کے جو تم بچھڑو تو کچھ ایسے بچھڑو
جیسے دو انجان مسافر
اِک انجانے اسٹیشن پر
اِک دوجے سے مل کے بچھڑیں اور کھو جائیں
تم کیا اِک ٹیبل پر بیٹھے سوچ رہے ہو
دیکھو!
وقت گزر جائے گا
انتظارمیں نے جب بھی لکھنا چاہا
کاغذ پر دیوار بنا کر
اس پر اپنی آنکھوں کی تصویر بنا دی
جس میں تیرے آنے کی اُمید ابھی تک باقی ہے
کب آؤ گے..؟
|