Urdu Manzil


Forum

Directory

Overseas Pakistani

 

چمن زار غزل مشاعرہ بحرین

چمن زارِ غزل عالمی مشاعرہ بحرین  

 رپورٹ اقبال طارق
 

قوموں کی زندگی میںتہوار اور تقریبات ایک خاص مقام رکھتے ہیںایسی تقاریب قوم کو نئے جوش ، عزم اور ولولے سے ہمکنار کرتی ہیںنمائندہ پاکستان اے،سی، ای ،پی، محترم رضوان ممتازاور ان کے احباب کا یہ امتیاز رہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ معیاری، یادگار اور منفرد تقاریب کا اہتمام کیا ہے۔اپنی انہیں روایات کو قائم رکھتے ہو گذشتہ سال کی طرح اس بار بھی یوم پاکستان کے حوالے سے ایک عالمی مشاعرے بعنوان ’’چمن زارِ غزل ‘‘کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت ممتاز ماہر تعلیم ولسانیات، نقاد ، ادیب اور شاعر پروفیسر سحر انصاری نے کی جو خصوصی دعوت پر پاکستا ن سے تشریف لائے تھے۔جبکہ مہمان خصوصی سفیرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان عزت مآب اکرام اللہ محسود تھے ان
 

کے علاو ہ جن شعرا ء اور شاعرات نے شرکت کی ان میں پاکستان سے تشریف لائے ہوئے ممتاز شاعر ادیب اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد،ممتاز شاعرہ نجمہ خان،ابوظہبی سے ڈاکٹر عاصم واسطی،شارجہ سے

منفرد لہجے کی ہر دل عزیز شاعرہ محترمہ ثروت زہرا،امریکہ میں مقیم شاعرہ اور ممتازافسانہ نگار محترمہ فرحت پروین، سعودی عرب سے دبنگ اور انقلابی لب و لہجے کے شاعر اور ادیب طارق محمود طارق، مزاح نگار اور شاعرشوکت جمال، محمد ثاقب جونپوری بھارت سے محترم قمر مراد آبادی برطانیہ سے خوبصورت اور جدید لہجے کی شاعرہ نور الصباح سیمی برلاس شامل تھیں۔ جبکہ مقامی شعرا ء میںاردو ادب کے روح رواں اور بحرین کے ممتاز شاعرمحترم اقبال طارق،انور بھٹی، اشعر حسن،خواجہ شرف ،الطاف رانا اور احمد عادل شامل تھے۔
تقریب کے آغاز میں جب سفیرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان اکرام اللہ محسود تشریف لائے تو اُن کااستقبال بحرین اور پاکستان کے پرچم ہاتھوں میں اُٹھائے ہوئے پاکستانی بچوں نے کیاجن کے لب پر ملی نغمہ’’اے وطن پیارے وطن پاک وطن پاک وطن اے مرے پیارے وطن‘‘ تھاسفیر پاکستان کے نشست پر تشریف رکھتے ہی اشعر حسن نے مائیک سنبھالا اور ملک ناصر کو دعوتِ کلامِ پاک دی اوراِس کے بعد اے،آر،جاوید نے ہدیۂ نعت بحضور سرورِ کونین پیش کیا،اِس کے بعدنمائندہ ،پاکستان بحرین انجینرنگ سوسائٹی رضوان ممتاز کو یومِ پاکستان اورآج کے مشاعرے چمن زارِغزل کے حوالے سے خطاب کرنے کے لیے بلایا گیا جنابِ رضوان ممتاز نے کہا کہ مشاعر ے ہماری تہذیبی اور ثقافتی روابط کو استحکام بخشنے کے علاوہ ادب کی ترویج اور ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شاعری میں جس طرح جذبات اور احساسات کی ترجمانی ہوتی ہے وہ نثر میں ممکن نہیںاور خاص طور ملّی اور قومی اشعار لوگوں میں ایک امنگ اور ولولے کی ایسی کیفیت پیدا رکر دیتے ہیں جو قوموں میں انقلاب برپا کرنے کے باعث بنتے ہیں۔آج کا مشاعرہ بھی مارچ

 میں لاہور میں ہونے والی اس تاریخی قرارداد کی یاد میں منعقد کیا گیا ہے جب برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں اپنے لئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کو اپنی منزل قرا ر دیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم سب مارچ کے اس تاریخی ورثے کی بازگشت شعروں کی صورت سُننا چاہتے ہیں اور اِسی خواہش نے مجھے آپ سب کو یہاں لانے پر آمادہ کیا اور آپ سب کی وطن دوستی آپ کو یہاں کھینچ لائی ، میں تہۂ دل سے سفیرِ پاکستان اکرام اللہ محسود، پاکستان ایمبیسی،شعرائے کرام اور آپ سب کا ممنون ہوں اور مجھے یہ بات کہتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہماری آرگنائزنگ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ مشاعرہ ’’چمن زارِ غزل‘‘ پاکستان ایمبیسی اور آپ سب کے تعاون سے انشااللہ ہر سال مارچ میں منعقد ہوا کرئے گا(اس بات کا تالیوںکی گونج سے سب نے خیر مقدم کیاانہوں نے گفتگو کے آخر میں یہ شعر پڑھ کرمہمان خصوصی سفیرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان عزت مآب اکرام اللہ محسودکو خطاب کی دعوت دی۔
 

ہم حرف کی خوشبو سے جہاں باندھ رہے ہیں
 

مٹی کی محبت کے نشاں باندھ رہے ہیں
 

تہذیب کی گلیوں میں زمانے کی بقا ہے
 

سو روح کی مستی کا سماں باندھ رہے ہیں
 

پاکستان زندہ بادسفیرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان عزت مآب اکرام اللہ محسودنے اپنے خطاب میں کہا کہ ، میں رضوان ممتاز اور آرگنائزنگ کمیٹی کو’’چمن زارِ غزل‘‘ کی پُر رونق تقریب کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں،ادب، تہذیب و تمدن اور ثقافت برِصغیر کے مسلمانوں کی انفرادیت اور ایک علیحدہ آزاد ریاست کے وجود کا باعث بنی، آج کی تقریب 23 مارچ 1940 کی قراردادِ پاکستان کی یاد دلانے اور اپنے پیارے وطن پاکستان اور اپنی قومی زبان اُردوسے لگاؤ کا اظہار ہے میں معزز شعرائے کرام اور حاضرین کا شکر گزار ہوں جن کی تشریف آوری نے اس محفلِ مشاعرہ کی خوبصورتی کو دوبالا کیا اور وطنِ عزیز سے محبت کا ثبوت دیا آپ لوگ یہاں بحرین میں پاکستان کے نمائندہ اور ملک کی تہذیب کے آئینہ دار ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ بحرین میں مقیم پاکستانی کیمونٹی تسلسل سے کلچر پرموشن کے مختلف پروگرامز کا انعقاد کرتی رہتی ہے۔جس کے لیے آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں ،اس سلسلے میں پاکستان ایمبیسی آپ کی ہر وقت ہر ممکن اعانت کے لیے حاضر ہے۔مجھے اُمید ہے کہ آپ لوگ آئندہ بھی اس کلچر پر موشن کو اسی جوش و خروش سے جاری رکھیں گے۔پاکستان پائندہ باد
سفیرِ محترم کی تقریر ختم ہوتے ہی رضوان ممتاز سٹیج پر تشریف لائے اور انہوں نے سفیرِ پاکستان کو گلدستہ پیش کیا،اور سفیرِ محترم سے چمن زارِ غزل کمیٹی کو شیلڈز دلوائیںجنہوں نے اپنے شب وروز اس مشاعرے کے لیے مختص کر دیے تھے ۔یہ شیلڈز اقبال طارق،سید روحیل ہاشمی،چوہدری محمد ریاض،ملک مسعود الرحمن،محمد شفیق اور اے۔ڈی۔ظفر صاحب نے سفیرِ پاکستان سے وصول کیں۔

اس کے بعد بیرونِ ممالک سے تشریف لائے ہوئے شعرائے کرام پروفیسرسحرانصاری صدرِ مشاعرہ

امجد اسلام امجد،نجمہ خان، فرحت پروین،عاصم واسطی،طارق محمود طارق،شوکت جمال،محمد ثاقب، قمر مرادآبادی اورنور الصباح سیمی برلاس اور ثروت زہرہ کو سٹیج پر مشاعرے کے باقائدہ آغاز کے لیے دعوت دی گئی،اور مشاعرے کی نظامت امارت سے تشریف لائی مہمان شاعرہ ثروت زہراکے سپرد کر دی گئی،مشاعر ے کی ابتدا مقامی شعرائے کرام سے کی گئی۔جن کا کلام نذر قارئین ہے۔

انور بھٹی

تمام عمر یہی خواب میں دیکھا ہے

کبھی تو خواب میں آئے وہ مجھ سے بات کرئے

مری دُعا ہے خدایا مجھے عطا کر دے

بس اِک چراغ جو روشن یہ کائنات کرئے

خواجہ شرف

ہم نہ سمجھے کہ ابتدا کیا ہے

اور نہ سمجھے کہ انتہا کیا ہے

دریچہ ہے نہ کوئی در کھلا ہے

کرن آنے کو مانگے راستہ ہے

اشعر حسن

آگ سی جل رہی ہے سینے میں

اک تپش پل رہی ہے سینے میں

ہو کا عالم ہے اور دبے پاؤں

خامشی چل رہی ہے سینے میں

اقبال طارق 

سسکیاں چاند کی سُنیں ہم نے

جب ستاروں کو ٹوٹتا دیکھا

حُسن دیکھا تو اُنگلیاں کاٹیں

کیا کریں گے اگر خدا دیکھا

وہی درخت بہاروں کی بھی دُعا لے گا

خزاں کی دُھوپ کو ماتھے پہ جو سجا لے گا

صلیبِ شب سے اُتارے گا تُو مجھے سورج

معاوضہ تو بتا دے کہ اِس کا کیا لے گا

الطاف رانا

کوئی ہم نفس نہیں ہے

کوئی ہم زباں نہیں ہے

تُوجو مہرباں نہیں تو

کوئی مہرباں نہیں ہے

احمد عادل

کچھ اس طرح سے بدلتا رہا وطن کا چلن

گیا ہوا جو مسافر ہے گھر نہیں آتا

ہے گوارہ کم خوشی بھی غم نہیں ہے کم سے کم

وہ کشیدہ ہے مگر برہم نہیں ہے کم سے کم

مے کدے کے شب رسیدہ اِن چراغوں کی ضیا

کہکشاں شاید نہ ہو مدہم نہیں ہے کم سے کم

محمد ثاقب

ایک قطرہ شراب زیادہ ہے

اُس کا اتنا حساب زیادہ ہے

آج آنکھوں میں تاب زیادہ ہے

حُسن کچھ پُر شباب ذیادہ ہے

قمر مرادآبادی

ہمارے دوستوں کا ظرف دیکھو

ہماری آزمائش کر رہے ہیں

بھلا ہم اُن سے کیا انصاف مانگیں

جو قاتل کی سفارش کر رہے ہیں

اپنے قد سے بڑا ہوتانہیں کوئی انساں

ود کو جوچھوٹا سمجھتا ہے بڑا ہو تا ہے

شوکت جمال نے مزاحیہ کلام پر خوب داد وصول کی

نہ سارے ملک پر نہ ہے ماحول پر یارو

اپنی نظر تو ہے فقط چھترول پر یارو

سوچوں میں عقدِ ثانی کے کھویا ہوا ہوں میں

بیگم سمجھ رہی ہے کہ سویا ہوا ہوں میں

نزلہ شدید اُن کو اگر ہے تو کیا ہوا

ہم کو کسی فلو سے ڈرایا نہ جائے گا

ہے آرزوئے وصل کا روشن جو یہ دیا

چھینکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

شوکت جمال کے بعد سعودی عرب سے آئے ہوئے منفرد اور بے باک لہجے کے شاعر طارق محمود طارق نے پہلے اپنا پنجابی کلام پڑھا اور سامعین میں ایک جوش و ولولہ پیدا کر دیا اس کے بعد یوم پاکستان کے حوالے سے یہ اشعار پڑھ کر خوب داد حاصل کی۔
 

نفرت کی دیوار گراؤ دن ہے پاکستان کا
 

اک ودجے کو گلے لگاؤ دن ہے پاکستان کا

ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تم نے اپنی طاقت کھو دی ہے

پھر سے اک وحدت بن جاؤ دن ہے پاکستان کا

ملک مسعود کی فرمائش پر انہوں نے ایک اور غزل پڑھی جن کے اشعار نذر قارئین ہیں:

غمِ دل کا نظر سے بولنا اچھا نہیں لگتا

ترا اِن موتیوں کو رولنا اچھا نہیں لگتا

یہ تیرا شہر ہے اِس میں منافق لوگ رہتے ہیں

اِنہیں تیرا یہاں سچ بولنا اچھا نہیں لگتا

طارق محمود طارق کے بعد برطانیہ سے آئی ہوئی دو شعری مجموعوں کی خالق محترمہ سیمی برلاس کو دعوت دی گئی انہوں نے اپنے مخصوص پر درد انداز میں ان اشعار پر خوب داد سمیٹی۔
 

باغباں کر گئے گلچیں کے حوالے گلشن
 

ہر کلی اب تو لہو رنگ یہاں ملتی ہے
 

یہ کھیل ہے کہ کھیل کا انجام ساتھیو
 

ہلنے لگے ہیں گھر کے در و بام ساتھیو
 

کل ایک چھت کے نیچے جو باہم جمع ہوئے
 

وہ چاہتے ہیں آج جدا نام ساتھیو
 

سیمی برلاس کے بعد متحدہ عمارات سے آئی ہوئی منفرد لب و لہجے کی شاعرہ اور مشاعرہ کی ناظمہ محترمہ ثروت زہرا نے جب اپنا کلام سنایا تو سامعین نے انہیں ہر شعر پر خوب داد سے نوازا، طارق محمود طارق کے اصرار پر انہوں نے اپنی نظم (خط۔)سنائی جس کو سن کر سامعین پر ایک رقت کی کیفیت طاری ہو گئی ان کے چند اشعار
 

کانچ کے پیرہن روشنی کھا گئی
 

رات کو اِس کے دِن کی خوشی کھا گئی
 

جسم کے زاویے ڈولتے رہ گئے
 

تشنگی روح کی تازگی کھا گئی
 

سوال اندر سوال لے کر کہاں چلے ہو
 

یہ آسمانِ ملال لے کر کہاں چلے ہو

سراب پینے کی آرزؤ ہے تو خواب دے دو
 

سفر میں خواب و خیال لے کر کہاں چلے ہو
 

امریکہ سے آئی ہوئی پاکستانی نژاد افسانہ نگار اور شاعرہ فرحت پروین نے اپنے مخصوص اور دھیمے لہجے میںآزاد نظمیں پیش کی جنہیں خوب پذیرائی حاصل ہوئی ان کے چند اشعار

کبوتر کے پروں پر لکھ کے جو پیغام بھیجا تھا

ملا تم کو

ابھی تو رنگ بھرنے تھے

بہت سے میں نے لفظوں میں

بھلا بیٹھی جو عجلت میں
 

ڈاکٹر عاصم واسطی نے اپنی غزلوں سے سامعین سے خوب داد سمیٹی اور ان کی دل موہ لینے والی شاعری سے متاثر ہو کر انہیں مکرر پڑھنے کے لیے دعوت دی گئی۔ان کا نمونہ کلام نذر قارئین ہے۔
 

کس طرح بیچا گیا سستا مجھے بازار میں
 

کس نے میرے جسم کے سونے کو پیتل کر دیا
 

تب یقیں آئے خود اپنے فن کا مجھے
 

جب مرے وقت کا ناقد مجھے رد کر دے گا
 

میں بولتا تھا کہ مجھ کو نہیں تھا کچھ معلوم
 

میں چپ ہوا ہوں کہ مجھ کو خبر ذیادہ ہے
 

مرے وطن کا یہی مسلہ رہا عاصم
 

وہاں دماغ ہے کم اور سر ذیادہ ہے
 

غم بدلتا ہے تو غم خوار بدل جاتے ہیں

دن بدلتے ہی مرے یار بدل جاتے ہیں

کون اس شہر میں جینے کا طریقہ سیکھے

روز اس شہر کے معیار بدل جاتے ہیں

نجمہ خان جو لاہو رپاکستان سے تشریف لائی تھیںان کا کلام بلاغت نواز سے سامعین خوب محظوظ ہوئے ان کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں

ہوں تجھ سے دور تنہا دل شکستہ
 

اندھیرا اور گہرا ہو گیا ہے

تری جانب مجھے جو لا رہا تھا

وہ جگنو راستے میں کھو گیا ہے
 

کہاں سرحد ہے اقلیمِ ادب کی
 

سفر ہوتا نہیں ہے ختم اس کا
 

مسلسل ذہن و دل پر ہے مسلط
 

یہ دُنیا عارضی ہوتے ہوئے بھی
 

جہاں واقعات و شہادتیں سبھی مجرموں کے خلاف تھیں
 

وہاں عدلیہ کی وہ حیلہ ساز رعایتیں مجھے کھا گئیں
 

امجد اسلام امجدپڑھنے آئے تو ہال سے فرمائشوں کا ایک تانتا بندھ گیا امجد اسلام امجد مسلسل فرمائشی کلام سُناتے رہے اور داد سمیٹتے رہے
 

میں بے نوا ہوں صاحبِ عزت بنا مجھے
 

اے عرضِ پاک اپنی جبیں پر سجا مجھے
 

آقا سے ہم غلام کریں گے حساب کیا

لینی اگر ہو بھیک تو پھر انتخاب کیا

دن میں جلے چراغ تو کیا اس کی روشنی

لالچ ہو جس نماز میں اُس کا ثواب کیا

قصہ مختصر

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے

تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے

آخر میںصدرِ مشاعرہ سحرانصاری صاحب کو دعوتِ سُخن دی گئی تو انہوں نے کہا کہ دیارِ غیر میں اپنی کیمونٹی کا یو ں شب بھر ساتھ دینے پر سفیرِ پاکستان اکرام اللہ محسود صاحب بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں اور رضوان ممتاز اور آرگنائزنگ کمیٹی ’’چمن زارِ غزل‘‘ بھی اور میں اُمید کرتاہوں کہ آئندہ بھی پاکستان ایمبیسی یوں ہی سر پرستی کرتی رہے گی اوریہ چمن زارِ غزل یہاں آن ،بان اور شان سے سجتا رہے گا

محبتوں کو بے سبب زوال کیسے آگیا

یہ بیٹھے بیٹھے آج اک خیال کیسے آگیا

ابھی تو زندگی کو ریزہ ریزہ چن رہا ہوں میں

ابھی سے یہ شکست کا سوال کیسے آگیا

برا ہی کیا ہے غبارِ سفر بدلتے ہوئے

ھوا تو آئی نظر رہ گزر بدلتے ہوئے

یہی ہے وضع ہماری یہی ہماری شناخت

کہیں سُنا ہے پر ندوں کو پر بدلتے ہوئے

سدا اپنی روش اہلِ زمانہ یاد رکھتے ہیں

حقیقت بھول جاتے ہیں فسانہ یاد رکھتے ہیں

ہجوم اپنی جگہ تاریک جنگل کے درختوں کا

پرندے پھر بھی شاخِ آشیانہ بھول جاتے ہیں

ہمیں اندازہ رہتا ہے ہمیشہ دوست دُشمن کا

نشانی یاد رکھتے ہیں نشانہ یاد رہتا ہے

ہماری سمت اک موجِ طرب آئی تو یاد آیا

کہ کچھ موسم ہمیں بھی غائبانہ یاد رکھتے ہیں
دیر تک سحر انصاری لوگوں کی فرمائش پر اُنہیں نظمیں اور غزلوں کے گلاب سامعین کو پیش کرتے رہے اور اِس آخری فرمائشی غزل کے ساتھ ہی چمن زارِ غزل کا اختتام ہوا آئندہ برس تک کے لیے

عجیب ہوتے ہیں آدابِ رخصت محفل

کہ وہ بھی اُ ٹھ کے چلا جس کا گھر نہ تھا کوئی
 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE