Urdu Manzil


Forum

Directory

Overseas Pakistani

 

 بحرین میں عالمی مشاعرہ 2010

رپورٹ: طاہرعظیم
انجمن فروغِ ادب بحرین کے زیراہتمام صہیب قدوائی اور عدیل ملک کی سرپرستی میں عالمی مشاعرہ 2010 کا انعقاد گذشتہ دنوں مقامی ہوٹل میں ہوا،مشاعرے کے انتظامی امور کی تمام تر ذمہ داری طاہر عظیم،مختارعدیل،حق صاحب،محمداکرم،محمد بابر،عبدالواحد کے سپرد تھی۔
مشاعرے میں ہندوستان سے معراج فیض آبادی،پاپولر میرٹھی،منصور عثمانی جبکہ پاکستان سے اجمل سراج،فرحت عباس شاہ،صائمہ علی،کویت سے عامر قدوائی،قطر سے عزیزنبیل شریک ہوئے۔اور مقامی شعراء میں سے رخسار ناظم آبادی،خورشید علیگ،احمد عادل،مختار عدیل اورطاہر عظیم کا انتخاب کیا گیا۔
اس تقریب کے مہمانِ خصوصی عزت مآب اکرام اللہ محسود(سفیر اسلامی جمہوریہ پاکستان،بحرین) تھے،جبکہ مسندِ صدارت کو محترم معراج فیض آبادی نے رونق بخشی،نظامت کے فرائض منصور عثمانی نے خوش اسلوبی سے ادا کیے۔
تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا ،جس کی سعادت وقار اعوان نے حاصل کی،صہیب قدوائی نے مہمان شعراء اور سامعین کو خوش آمدید کہا اور مشاعرے کے معاونین کا شکریہ ادا کیا۔
حسبِ روایت اس سال کے مشاعرے کے ساتھ ایک خوبصورت مجلے کا اجراء کیا گیا،طاہرعظیم اور مختار عدیل کے مرتب کردہ مجلے’’اظہار‘‘کو کامران نفیس نے ڈیزائن کیا تھا،مجلے کی رسم اجراء سفیر پاکستان محترم اکرام اللہ محسود کے ہاتھوں ہوئی،اس موقع پر عدیل ملک،مختار عدیل اور طاہرعظیم بھی موجود تھے۔
اس کاروائی کے بعد مشاعرے کے باقاعدہ آغاز کے لئے صہیب قدوائی نے مہمان اور مقامی شعراء کو بل ترتیب اسٹیج پر دعوت دی،صہیب قدوائی نے مزید کاروائی کے لئے مائیک ناظم مشاعرہ جناب منصورعثمانی کے سپرد کیا۔منصور عثمانی نے نظامت کی ابتدا ان اشعار و الفاظ سے کی۔
’’ فکرِ شاعر کے دریچوں سے گزر کر دیکھو کتنا دشوار ہے لوگوں کی نظر میں رہنا
 حوصلہ یہ بھی ہے اس دور کے فنکا روں کا آگ سے کھیلنا اور موم کے گھر میں رہنا
اردو کی محفلیں کہیں بھی منعقد ہوں،ہندوستان اور پاکستان سے ان کا رشتہ اتنا گہرا ہوتا ہے کہ مشاعرہ بحرین میں ہو،دبئی میں ہو،امریکا میں ہو لیکن ہر مشاعرے میںلکھنو مہکتا ہے،کراچی کھنکتی ہے،لاہور جگمگاتا ہے،علی گڑھ کی خوشبو آتی ہے اعظم گڑھ کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔مشاعرے ہماری تہذیبی زندگی کا نغماتی اظہار ہیں،شاعری ظلم کرنے والوں اور ناانصافی اپنی عادت بنانے والوں کے ہاتھوں سے بچے ہوئے حسن اور خوبصورتی کی حفاظت کرنے کا عمل ہے،مسائل بے شمار ہیں،شور بہت ہے،مصروفیات بہت ہیں،دل کی دھڑکن سننے کا کہیں موقع ملتا ہے تو یہی ادبی محفلیں ہوتی ہیں،شعرائے کرام ہوتے ہیں،شاعری ہوتی ہے،ہمیں اپنے خوابوں کی تعبیرمل جاتی ہے اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ خود سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے،اردو کے جو مرکز رہے ہیںوہاں تو یہ حال ہوگیا ہے کہ مشاعرے اب اہل نشاط کی تفریح کا سامان ہوتے جارہے ہیںلیکن سلام آپ جیسے لوگوں کے جذبے کو کہ آپ مشاعرہ اس لئے منعقد کرتے ہیں کہ کچھ اپنے زخموں کا شمار ہو جائے،اپنے غموں سے ملاقات ہوجائے،اپنے مسائل کا حل مل جائے ۔ آپ حضرات مختلف شہروں اور مختلف ملکوں سے یہاں تشریف لائے اپنے گھروں کا اندھیرا دورکرنے،ہوتا یہ ہے کہ اس جدوجہد میں آدمی کھوجاتا ہے لیکن ایک بار پھر آپ کو سلام کہ آپ کھوئے بھی نہیں اور اپنی تہذیب کو بھی کھونے نہیں دیا‘‘
اس گفتگو کے بعد انہوں نے مشاعرے کے پہلے شاعر طاہرعظیم(راقم الحروف)کو دعوت دی۔چند اشعار
 خاک کے اس مکان سے باہر کچھ تو ہے جسم و جان سے باہر
 اب مجھے یہ بھی دھیان رکھنا ہے ہو نہ جائے وہ دھیان سے باہر
 مجھ کو بھی حق ہے زندگانی کا میں بھی کردار ہوں کہانی کا
 جو مجھے آج پھر نظر آیا خواب ہے میری نوجوانی کا
 ہم کو درپیش ہے زمانے سے مسئلہ بخت کی گرانی کا
 کیوں نکلتا نظر نہیں آتا کچھ نتیجہ بھی خوش گمانی کا
 ایک مدت ہوئی کہ ٹوٹ گیا دل کہ مرکز تھا گل فشانی کا
 کل جو سیلاب آگیا تو عظیم ہم نے جانا مزاج پانی کا
راقم الحروف کے بعد ہمیشہ کی طرح نوجوان شاعر مختارعدیل کو دعوت کلام دی گئی،ان کے کلام پر سامعین کے ساتھ ساتھ مہمان شعراء نے بھی داد دی،
چند اشعار ملا حظہ فرمائیں۔
 اپنی پہچان بھلا کیسے میں قائم رکھوں آئینہ روز بدل دیتا ہے صورت میری

 سانسوں کا زندان ہے بابا جینا کب آسان ہے بابا
 میری آنکھیں ، اس کا چہرہ بس اک ہی ارمان ہے بابا
 جس میں سب کچھ ضم ہوجائے عشق تو وہ طوفان ہے بابا
 وصل کا اپنا ایک نشہ ہے ہجر کی ا پنی شان ہے بابا
محتارعدیل کی کامیاب واپسی کے بعد خورشید علیگ کی باری آئی
 ہرتازہ غم نے پچھلے غموں کو بھلا دیا جب نقش دوسرا بنا ،پہلا مٹا دیا
ہم پر کسی بھی بات کا ہوتا نہیں اثر غم کی ہزار ٹھیس نے پتھر بنا دیا
 دل ہی تھا اک فقط مرا اپنا اب تو وہ بھی نہیں رہا اپنا
 جس سے ڈرتے رہے برابر ہم غور سے دیکھا سایہ تھا اپنا
 منزل شوق دو قدم پر تھی کس جگہ کارواں لٹا اپنا
 جانے کیا مدعا تھا آنے کا در پہ وہ نام لکھ گیا اپنا
احمد عادل کے چند اشعار جنھیں داد سے نوازا گیا
 میں نے جب جب ترے بالوں کو پریشاں پایا دل میں چھبتا ہوا پر توئے پشیماں پایا
 ہم سے تو بات بھی کرنے میں تکلف تھا تجھے بزمِ اغیار میں لیکن تجھے شاداں پایا
 یوں تو اس دور میں ہر شے کی گرانی ہے بہت صرف انساں کا لہو ہے جسے ارزاں پایا
 دشت غربت میں ہمیں کوئی بھی اپنا نہ ملا جب بھی سوچا تجھے نزدیک رگِ جاں پایا
نوجوان شاعر عزیز بنیل مشاعرے کے پہلے مہمان شاعر تھے کہ جنھیں زحمتِ کلام دی گئی،اور انہوں نے غزلوں کے ساتھ ساتھ بعض دوستوں کی فرمائش پر فلسطین کے حوالے سے کہی گئی نظم سنائی،اور اپنے انتخاب کو صحیح ثابت کیا۔
 میں دسترس سے تمھاری نکل بھی سکتا ہوں یہ سوچ لو کہ میں رستہ بدل بھی سکتا ہوں
 قلم ہے ہاتھ میں،کردار بھی مرے بس میں اگر میں چاہوں کہانی بدل بھی سکتا ہوں
 تمھارے بعد یہ جانا کہ میں جو پتھر تھا تمھارے بعد کسی دم پگھل بھی سکتا ہوں
 میری بے سمتی تھی، میں تھا،قافلہ کوئی نہ تھا اک بگولہ ہم سفر تھا،نقشِ پا کوئی نہ تھا
 عادتاً سلجھا رہا تھاگتھیاں کل رات میں دل پریشاں تھا بہت اور مسئلہ کوئی نہ تھا
 تلوار گر گئی ہے زمیں پر تو کیا ہوا دستار اپنی سر پہ سنبھالے ہوئے تو ہیں
 ہم قافلے سے بچھڑے ہوئے ہیں مگر نبیلؔ اک راستہ الگ سے نکالے ہوئے تو ہیں
 عزیز نبیل کے بعد جناب رخسار ناظم آبادی کو دعوت دی گئی،جنہوں نے مشاعرے کے گراف کو برقرار رکھتے ہوئے داد وصول کی۔
 موم کے جسم دھوپ کے ڈر سے ساتھ نکلے نہیں مرے گھر سے
 اک اندھیرا ہے یہ روشنی کی طرح زندگی ہے نہیں زندگی کی طرح
 دوستوں میں مروت نہیں نا سہی اجنبی تو ملیں اجنبی کی طرح
 سیکڑوں فکر میں آج لپٹا ہوا آدمی کیا ملے ،آدمی کی طرح
مشاعرے کی واحد شاعرہ صائمہ علی تھیں،جو پاکستان سے خصوصی دعوت پر مشاعرے میں شریک ہوئیں تھیں،صائمہ علی کا پہلا شعری مجموعہ’’دھوپ لوں ہتھیلی پر‘‘ ۲۰۰۳ء میں شائع ہوچکا ہے،جس میں احمد ندیم قاسمی صاحب ایک جگہ اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں’’صائمہ علی محبت اور محبت سے پھوٹنے واے ہجر اور اداسی کی شاعرہ ہے‘‘
صائمہ علی تالیوں کی گونج میں تشریف لائیں۔
 سوچ رکھنا بھی جہاں جرمِ بغاوت ٹھہرے لب کشائی کی وہاں کیا کوئی صورت ٹھہرے
 تم کو تو قتل بھی جائز ہو بنامِ غیرت میں اگر شعر بھی کہہ دوں تو بغاوت ٹھہرے
اس شعر کا پڑھنا تھا کہ ہال واہ۔۔واہ۔۔۔کی آوازوں سے گونج اٹھا
 مشورے جب کہ ہوں آندھی سے چمن کی بابت کیا پھر ایسے میں گل و برگ کی صورت ٹھہرے
 فلک کے تیر مری تاک میں نہیں مری جاں کہ میں قریۂ سفاک میں نہیں مری جاں
 شجر کو علم کہاں،کیا ہے رنجِ دربدری کہ میرا دکھ ترے ادراک میں نہیں مری جاں
 میں تیری ذات سے آگے بھی دیکھ سکتی ہوں کہ میرا فن تری املاک میں نہیں مری جا ں
صائمہ علی ہر ہر شعر پر داد پا رہی تھیں اور منتظمیں اپنے انتخاب پر خوش ہورہے تھے،ان کی ایک اور غزل کے چند اشعار
 ہجر کے جام سے سیراب رہا کرتے تھے موسمِ غم میں نمویاب رہا کرتے تھے
 دید کی شرط نہ تھی عشق کے افسانے میں ہم تجھے سوچ کے شاداب رہا کرتے تھے
 دشت ہیں اب مری آ نکھیں تو کرم ہے تیرا ورنہ پہلے یہاں سیلاب رہا کرتے تھے
 تتلیاں تھیں تری آنکھیں کہ جنھیں پھول سے لب بڑھ کہ چھولینے کو بے تاب رہا کرتے تھے
صائمہ علی تالیوں کی گونج میں اپنی نشست پر گئیں،اور ناظمِ مشاعرہ نے منتظمین کو اس بہتریں شاعرہ کے انتخاب پر مبارک باد پیش کی۔
جناب عامرقدوائی کویت سے مشاعرے میں شریک ہوئے تھے،ان کے چند اشعار:
 سراب بن کے جو راہوں میں آتے رہتے ہیں وہ میرے شوقِ سفر کو بڑھاتے رہتے ہیں
 عجب مزاج ملا ہے ہمیں وراثت میں چراغ ضد میں ہوا کی جلاتے رہتے ہیں
مشاعرہ مسلسل کامیابی کی منزلیں طے کررہاتھا ،اور ایسے میں ناظم مشاعرہ نے اجمل سراج کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی،اجمل سراج پچھلے سال کامیاب مشاعرہ پڑھ کر گئے تھے،ان کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جو کسی بھی مشاعرے کے معیار اور کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں،انھیں بہت توجہ سے سنا گیا،یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انھیں کتنی داد ملی
 کیا ضروری ہے یہی نالہ و فریاد رہے ہم تجھے بھول بھی سکتے ہیں،تجھے یاد رہے
 دل کبھی ذہن کو خالی نہیں ہونے دیتا اس خرابے میں کہاں تک کوئی آباد رہے
 سو طرح کے غم اور ترے ہجر کا غم بھی کیا زندگی کرنے کے لئے آئے ہیں ہم بھی
 ہاں اس کا تقاضا تو فقظ ایک قدم تھا افسوس بڑھا پائے نہ ہم ایک قدم بھی
 اک رنجِ تعلق ہے کہ جتنا ہے بہت ہے اک درد محبت جو زیادہ بھی ہے کم بھی
 یہ ذکر ہے جس شہر کا ا ب کس کو بتائیں کچھ وقت گزار آئے ہیں اس شہر میں ہم بھی
 اس روز جب اس شہر میں اک جشن بپا تھا ہم نے تو سنا ہے کہ کوئی آنکھ تھی نم بھی
مشاعرے کا ماحول کافی سنجیدہ ہوچکا تھا،محفل میں قہقہے بکھیرنے کے لئے پاپولرمیرٹھی موجود تھے،ناظم مشاعرہ نے انھیں بلانا مناسب سمجھا ،
 کبھی صحن،توکبھی چھت پہ جاکے ڈھونڈتا ہوں خود اپنی رکھی ہوئی شے بھلا کے ڈھونڈتا ہوں
 اڑا دیئے ہیں محبت نے میرے ہوش و حواس میں اپنے چشمے کو چشمہ لگا کے ڈھونڈتا ہوں
 یاد آنے لگے چچا غالب یا الہیٰ یہ ماجرہ کیا ہے
 تاڑتا ہوں ہرایک لڑکی کو ورنہ آنکھوں کا فائدہ کیا ہے
 کبھی دروازے پہ دادی کبھی نانی آئی مجھ کو گھنٹی نہ طریقے سے بجانی آئی
 اس کو بلوانا پڑا،اس کی سہیلی سے مجھے ’’کام جب آ ئی تو پہچان پرانی آئی‘‘
مشاعرہ زعفران زار بن چکا تھا، آنے والے کسی بھی سنجیدہ شاعرکے لئے ماحول کو اپنے حق میں کرنا آسان کام نہیں ہوتا،ناظم مشاعرہ منصور عثمانی کی یہ اعلیٰ ظرفی تھی کہ انہوں نے کسی اور شاعر کو اس امتحان سے گزارنے کی بجائے اپنا کلام پیش کرنا مناسب سمجھا۔سامعین چونکہ شروع سے ان کی نظامت سے محظوظ ہورہے تھے،اس لئے انھیں نہ صرف توجہ سے سنا گیا بلکہ داد و تحسین سے بھی نوازا گیا،ان کے چند اشعار:
 بادشاہوں نے جسے تاج محل سے جیتا ہم نے وہ معرکہ بس ایک غزل سے جیتا
 ہرروز نئی طرح کے غم ٹوٹ رہے ہیں محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم ٹوٹ رہے ہیں
 اک دل ہی زمانے کے حوادث سے بچا تھا ا س پر بھی محبت میں ستم ٹوٹ رہے ہیں
 کبھی دستار کی بخشش،کبھی دستار پہ خاک ہے یہ دربار کا دستور تو دربار پہ خاک
مشاعرے کے اگلے شاعر فرحت عباس شاہ تھے،جن کے کئی چاہنے والے مشاعرے میں موجود تھے،انہوں نے تحت الفظ اور ترنم سے کلام سنایا،اور مشاعرے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا:
 آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے برف کو پگھلنے میں د یر کتنی لگتی ہے
 چاہے کوئی جیسا بھی ہمسفر ہو صدیوں کا راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
 چاہے کوئی رک جائے،چاہے کوئی رہ جائے قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
 دیکھ لینا کہ کسی دکھ کی کہانی تو نہیں یہ جو آنسو ہیں کہیں اس کی نشانی تو نہیں
 جانتا ہوں کہ سرابوں میں گرا ہوں یارو دوڑ پڑتا ہوں مگر پھر بھی کہ پانی تو نہیں
 جس طرح شہر سے نکلا ہوں میں بیمارترا یہ اجڑنا ہے کوئی نقل مکانی تو نہیں
 بدل گئے مرے موسم تو یا ر اب آئے غموں نے چاٹ لیا غم گسار اب آئے
 یہ وقت اس طرح رونے کا تو نہیں لیکن میں کیا کروں کہ مرے سوگوار اب آئے
مشاعرہ کامیابی سے صدرِ مشاعرہ تک پہنچا،انہوں نے اس خوبصورت مشاعرے کے انعقاد پر منتظمین کو مبارک باد پیش کی،اور اپنے خوبصورت کلام سے سامعین کو نوازا:
 محبتوں کے ہنر کو ترس گئے ہم لوگ رہے بھی گھر میں تو گھر کو ترس گئے ہم لوگ
 ہمارے ساتھ سفر کر رہا تھا ایک ہجوم مگر شریکِ سفر کو ترس گئے ہم لوگ
 بے خودی میں ریت کے کتنے سمندر پی گیا پیاس بھی کیا شے ہے میں گھبرا کے پتھر پی گیا
 مے کدے میں کس نے کتنی پی خدا جانے مگر مے کدہ تو میری بستی کے کئی گھر پی گیا
 ہماری نسل کی پہچان کر نا چاہتا ہے وہ ہم فقیروں پہ احسان کرنا چاہتا ہے
 اسے ہے شوق نئی بستیاں بسانے کا وہ سارے شہر کو ویران کرنا چاہتا ہے
آخر میں سفیرِپاکستان عزت مآب اکرام اللہ محسود کو مائیک پر دعوت دی گئی ،انہوں نے منتظمین کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ایسے تقاریب منعقد کر کے اپنی زبان کی خدمت کرتے ہیں،اور آنے والے تمام مہمان شعراء کا بھی شکریہ ادا کیا کہ وہ یہاں آکر اپنے کلام سے ہمیں محظوط کر تے ہیں،اس طرح مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا اور یادگار بن گیا۔

 


 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE