غزل

 

صغیر احمد جعفری

 

دل و نظر میں محبت کے سلسلے تھے بہت
وہ اور دور کہ ہم میں بھی حوصلے تھے بہت

 

ہم   اپنی   بات   لبوں   تک   اگر   نہیں  لائے
سبب یہی تھا کہ ہم اس کو چاہتے تھے بہت

 

جو دیکھنا  ہی  نہ  چاہیں  تو  بات  اور  سہی
ہماری  ذات  میں  ورنہ  تو  آئینے  تھے  بہت

 

تو   مل   گیا   تو  ہیں  یہ  فیصلے   مقدر  کے
رہِ حیات میں بس تجھ کو سوچتے  تھے بہت

 

کبھی کبھی تو الجھتا ہوں اپنے آپ سے بھی
صغیر سوچ میں  اپنی  تو  زاوئیے  تھے  بہت