Urdu Manzil


Forum

Directory

Overseas Pakistani

 

 افسانہ  : سرور غزالی ، برلن جرمنی
پھیکی دھوپ
 خاتون جج نے سوالات کا سلسلہ شروع کیا۔آپ کا نام ۔۔
 ’’بلونت کو ر۔‘‘ اس نے مختصر اًجواب دیا۔
 والد کا نام جج نے پھر سوال کیا۔ اس نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا۔۔’’سورن سنگھ۔‘‘ جج اس کے سوچنے کے وقفے پر متعجب ضرور ہوئی مگر اس نے کہا کچھ نہیں۔
 ’’شادی شدہ ؟۔‘‘ جج کا اگلا سوال تھا۔
’’ ہاں کہہ سکتے ہیں۔‘‘
’’ کیا مطلب ؟۔‘‘ جج نے پھر پو چھا۔۔’’ شادی شدہ ۔۔ ہاں یا نہیں میں جواب دیں۔‘‘
’’ ہاں۔‘‘ ا س نے مختصراً جواب دیا۔
 اچھا جج نے اس سے اگلا سوال کیا۔
’’ رہائشی پتہ؟۔‘‘ اور بلونت نے پتہ بتا دیا۔ لیکن جج نے پھر کہا۔
’’یہاں توکچھ اور پتہ لکھا ہو ا ہے۔ ‘‘
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘ بلونت نے جواب دیا۔
’’ جج صاحبہ ہو سکتا ہے۔ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ یہ پتہ صرف کاغذی کارروائی کے لئے دیا گیا ہے۔ دراصل میں اپنے پتا کے ساتھ کسی اور جگہ مقیم ہوں۔میں آپ کو یہ پتہ بھی بتا ئے دیتی ہوں۔‘‘
 جج نے پتہ نوٹ کیا۔
 ’’آپ کی مسٹر شمڈٹ کے ساتھ شادی ہوئی ہے۔‘‘ جج نے پھر جرح کیا۔
’’ ہاں۔‘‘ بلونت بولی ‘، ’’ مگر یہ شادی صرف کاغذی ہے۔ مجھے جرمنی میںمستقل قیام کے لئے ویزہ دلوانے کے لئے ۔۔‘‘ اس نے بات ادھوری چھو ڑ دی اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔
 ’’اور یہ بات آپ خود تسلیم کر تے ہوئے عدالتی پروٹوکول میں لکھوا نا چاہتی ہیں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے نتا ئج آپ کو ہی بھگتنے ہونگے۔‘‘ جج نے بلونت کو تنبیہ کی۔
 ’’جی ۔۔‘‘ بلونت نے جو اب دیا۔’’ مجھے معلوم ہے ایسا کر نا قانوناًجر م ہے۔ لیکن اس کے سرزد ہونے میں میرا کوئی ہاتھ نہیں۔ یہ میری مرضی کے خلاف ہو ا ہے۔‘‘
 ’’اچھا ہم اس پر تفصیل سے بعد میں بحث کریں گے ۔‘‘ جج نے پھر کہا۔ اور وہ دوسری جانب بیٹھے مرد سے سوال کر نے لگی۔
 ’’مسٹر شمڈ ٹ آپ کو معلوم ہے کہ عدالت کے سامنے غلط بیانی کی سزا کیا ہے۔ آپ اپنی شادی کے سلسلے میں کیا کہنا چاہتے ہیں۔ لیکن قبل اس کے کہ آپ بیان دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریں۔ میں آپ کے ذاتی کوائف درج کرلینا چاہتی ہوں۔۔۔ آپ کا نام۔‘‘ جج سوال کرتی رہی اور وہ جواب دیتا رہا۔
 ’’اچھا پھر۔۔‘‘ جج نے سوال کیا۔ ’’کیا آپ کی مسز بلونت کور سے آپ کی شادی ہوئی ہے ؟۔‘‘
 ُ ’’میں اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں دینا چاہتا ہوں۔‘‘ شمڈٹ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے یہ آپ کا قانونی حق ہے۔‘‘ جج بولی۔
’’ بیگم کور آپ کا بیان علیحدہ سے قلمبند ہوگا ۔ آج کی سماعت آپ دونوں کی شادی کو قا نونی شکل دینے کے لئے تھی، مگر چونکہ آپ شادی سے ہی انکار کر رہی ہیں اس لئے مجھے آج کی سماعت کو معطل کر کے نئی تاریخ پر از سرنو کیس کا جائزہ لینا ہو گا۔ آپ کے ساتھ ابھی سماعت کی نئی تاریخ طے کی جائے گی اور اس کے بعد ہم سب مقررہ تاریخ پر دوبارہ ملیںگے۔‘‘ کہہ کر جج نے عدالتی کارروائی ختم کر نے کا اعلان کر دیا۔
 مقررہ تا ریخ پر تمام لو گ جمع ہوئے ۔ بلونت کا صرف وکیل ہی آیا اس کاباپ اور وہ خود ، دونوںعدالت سے غیر حا ضر تھے۔ کارروائی شروع ہونے پر بلونت کے وکیل نے بتایا کہ وہ بلونت کا بیان پڑھ کر سنائے گا۔ کیونکہ بلونت کے بقول وہ اپنی تمام باتیں سنانے کے لئے عدالت میں پیش نہیں ہو نا چاہتی۔ قانوناً اس کو حق حاصل تھا کہ وہ ایسا کر سکے ۔چنانچہ عدالتی کارروائی شروع ہو گئی۔
 پھر جب اس کے وکیل کو موقعہ دیا گیا کہ وہ بلونت کا بیان پڑ ھ کر سنائے تو اس نے اس کا بیان پڑھ کر سنا نا شروع کیا۔
 ’’جج صاحبہ! میری کہانی تب سے شروع ہو تی ہے ، جب میں صرف چھ ماہ کی تھی اور ان دنوں میرے باپ کے سر میں یہ خناس سما یا کہ اسے اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر یورپ جا نا ہے۔ اور وہ میرے دادا دادی اور میری ماں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ یورپ چلا آیا۔ اس طرح سے جب میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے باپ کو پہلی دفعہ دیکھا تو اس وقت میں آٹھ سال کی ہو چکی تھی۔ اسوقت تک میرا خیال یہ تھا کہ میرے تاؤ اور میری تائی ہی میرے ماں باپ ہیں۔ کیونکہ میں انہی کے پاس پرورش پا رہی تھی۔ ایک بڑے سے گھر اور کنبے میں دادا دادی تاؤ اور تائی اور اپنے چچا زاد بھائی و بہن کے ساتھ، میں یو ںپل رہی تھی کہ مجھے احساس ہی نہ ہوا کہ میرا باپ میرے پاس موجود نہیں ہے۔ اس ہی گھر کے ایک کونے میں میری ماں بھی رہتی تھی جو اکژ بیمار رہتی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ محبت کی بھوکی یہ ماں مجھے کیا محبت دیتی وہ تو بس سکتے کی حالت میں رہ رہی تھی اور یہی وجہ تھی کہ میری تائی ہی مجھے پال رہی تھی۔میرا دادا مجھے بازار لے جا کر کھلونے دلاتا۔ جب میں اسکول جا نے کے قابل ہوئی تو میرے تاؤ نے میرے ساتھ جا کر میرا اسکول میں داخلہ کروادیا تھا۔اسی نے مجھے یونیفارم دلوائی تھی۔
آٹھ سال کے بعد جب اچانک میرے باپ کی گاؤں واپس لوٹنے کی خبر آئی تو مجھے بتا یا گیا کہ میرا حقیقی باپ کون ہے، اور یہ کہ وہ جلد ہی واپس آنے والاہے۔ میرا تاؤ میرا سگا باپ نہیں ہے بلکہ صرف میرا چچا ہے یہ سنکر میری دنیا تو ایکدم سے اندھیری ہو گئی۔یہ خبر میرے لئے نہایت روح فر سا تھی۔پھر میرا باپ آیا اور وہ مجھے بالکل اچھا نہ لگا اور میں اپنے تاؤ کی گود میں چھپ گئی ۔ لیکن یہ سب میں نے جتنا کٹھن اور مشکل جا نا تھا وہ سب کچھ اتنا ہی آسان نکلا۔ مجھے تو میری دنیا اجڑتی محسوس ہو رہی تھی لیکن درحقیقت ہوا کچھ نہیں۔ میں جیسے پہلے رہ رہی تھی اسی طرح زندگی گذارتی رہی ۔ میرے باپ نے نہ جانے کیوں مجھے اپنے سے زیادہ قریب کر نے کی کو شش بھی نہ کی شاید اس لئے کہ وہ ہماری توقع کے برخلاف صرف چند ہفتوں کے لئے گا ؤں آیا تھا۔ اس کے آنے سے البتہ ماں۔۔۔ میں جان چکی تھی کہ وہ کھو ئی کھوئی سی رہنے والی عورت ہی میری ماں ہے۔۔۔۔ بہت خوش نظر آرہی تھی۔ وہ اور باپ سارا دن کمرے میں گھسے رہتے۔ ماں باپ کے کھا نے پینے اور ہر چیز کابہت خیال رکھتی۔ اور اپنے میں مگن شاید وہ خوش تھے کہ میں زیادہ تر وقت اپنے تاؤ اور تائی کے ساتھ گذارتی تھی۔ میں پہلے کی طرح اپنے کزنوں کے ساتھ کھیلتی اور دادا ہی مجھے پہلے کی طرح کھلو نے دلانے لے جا یا کر تا۔ یوں چند ہفتے پلک جھپکتے گذر گئے اور باپ پھر واپس بھی چلا گیا۔
 زندگی جیسے پھر سے معمول پر واپس لوٹ گئی ہو۔ لیکن یہ میرا صرف خیال تھا۔ درحقیقت باپ نے آٹھ سال بعد آکر جیسے ہماری زندگی کے تا لاب میں ایک کنکر پھینک دیا ہو ایک کنکر جس کے