Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

معروف شاعرہ ثروت زہرا نے ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا

نظیرہ اعظم اورفرزانہ سعید مہمانانِ خصوصی تھیں

تحریر۔صبیحہ صبا

جانی پہچانی شاعرہ ثروت زہرا نے ایک شام اپنے احباب کو عشائیے پر مدعو کیا ۔شاعر اور ادیب جہاں بھی مل بیٹھتے ہیں طعام کے بعد کلام سنانے کا سلسلہ بھی جاری ہوجاتا ہے۔ثروت زہرا یوں بھی اپنے حسنِ اخلاق کی وجہ سے ادبی حلقے میں مقبول ہیں۔ادبی نشستوں میں شاعر تازہ کلام سناتے ہیں لیکن بڑے مشاعروںمیں عام طور پر اپنا مشہور اور مقبول کلام سناتے ہیں اس لئے ادبی نشستوں میں تازگی کا احساس ہوتا ہے نظیرہ اعظم صحافی اور معروف ادیبہ ہیں ان کا ایک ناول خواب بدوش اورافسانوں کی کتاب آشنا نا آشنا کے نام سے منظر عام پر آچکی ہے لیکن صحافت ان کا خاص میدان ہے۔اس نشست میں انھوں نے طنز مزاح سے بھر پور مضمون پیش کیا جسے بہت پسند کیا گیا۔فرزانہ سعیداسلام آباد میں مقیم ہیں۔عملی زندگی میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں ۔خیالوں کے جزیرے کے نام سے ان کی کتاب شائع ہو چکی ہے۔فرزانہ سعیدمعروف شاعر شوکت واسطی کی صاحبزادی اور عاصم واسطی کی بڑی بہن ہیں۔اس ادبی نشست میں تلاوت ثروت زہرہ کی بیٹی مریم فاطمہ نے کی سید صغیر جعفری نے حمد پیش کی نعت معروف نعت گو شاعرمقصود احمدتبسم نے انتہائی محبت اور عقیدت سے ہیش کی۔ سلیمان جازب نوجوان شاعر اور صحافی ہیں۔ انھوں نے کلام پیش کیا۔العین کے عبدالستارشیفتہ ترنم سے کلام پیش کرتے ہیں ۔شاہ زمان کوثر نے بھی کئی غزلیں سنائیں

مصدق لاکھانی نے منتخب غزلیں سنائیں

 ظہورالسلام جاوید

پروں کو کاٹتے رہنے کے باوجود ظہور
 

کہا یہ جاتا رہے حوصلہ اڑان میں رکھ
 

ہمیں جو رزق دیا اس میں وسعتیں رکھ دیں
 

مگر حصول میں صحرا کی حدتیں رکھ دیں 

صبیحہ صبا

ریشم رتوں کے خواب سے کچھ یاد رہ گئے

کیا لوگ تھے گلاب سے کچھ یاد رہ گئے

 آنکھوں میں تھا ضرور کسی یاد کا اثر

منظر وہ زیرآب سے کچھ یاد رہ گئے

سیدصغیرجعفری
 

ہے یہ شہرت یہ رسوائی دکھ سے بھری

وہ میری بزم آرائی دکھ سے بھری

ہے ملن کی گھڑی اور جدائی بھی ہے
اس لئے تو ہے شہنائی دکھ سے بھری

ثروت زہرا

ہزار ٹوٹے ہوئے زاویوں میں بیٹھی ہوں
 

خیال و خواب کی پرچھائیوں میں بیٹھی ہوں
 

تمہاری آس کی چادر سے منہ چھپائے ہوئے

پکارتی ہوئی رسوائیوں میں بیٹھی ہوں

فرزانہ سعید

سمجھ سکو تو ہے دل کا معاملہ سارا

کبھی یہ ماہ کبھی آفتاب مانگے گا
 

ستم ظریفی عہد رواں ہے بادل بھی

سلگتے دشت سے پینے کو آب مانگے گا

عاصم واسطی

میں کم نظر تھا سمجھ میں نہ آئے نظارے

وہ بے زبان تھا اس نے محال باتیں کیں

دکھائیں پہلے تصاویر ایک صحرا کی

پھر اس کی آنکھ نے مجھ سے غزال باتیں کیں

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE