Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

چند تاثرات
تسنیم عابدی
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
ریگ رواں پر تمام نقش مٹنے کو تیار ہیں۔یہ نقش مٹنے ہی کے لئے بنے ہیں۔ زندگی تیزی سے رواں دواں ہے اور ہر لمحہ فنا کے قریب تر کر رہا ہے۔زندگی کی دھوپ میں چھاؤں کی بہت ضرورت ہے اسی لئے اگر ایک شخص مثل سایہ نظر آئے تو اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے۔اظہار حیدر صاحب پاکستانی کیمونٹی کے لئے ایک گھنے سایہ دار درخت تھے۔وہ اپنے ایک شعر پر عمل کرتے ہوئے زندگی گذار گئے
جن کا پیشہ شجر تراشی ہے
پیڑ ان کو بھی سایہ دیتے ہیں
محرم الحرام کا مہینہ آیا تو مجھ گنہگار نے کربلا اورنجف کے لئے قصد سفر کیا۔واقعی بلاوا آگیا تھا ورنہ خواہش تو کب سے سینے میں پروان چڑھ رہی تھی۔ میں ان اشعار کو ورد زبان کرتے ہوئے نجف شریف پہنچی۔
میرے خلوص میں یا شوق میں کمی ہوگی
مجھے بلانے میں ان کو بڑے زمانے لگے
کرو دعا کہ خوشی سے وہاں میں مر جاؤں
نجف پہنچ کے یہ مٹی مری ٹھکانے لگے
میں ایامِ عزا میں کربلا کے روز وشب میں مصروف گریہ تھی غمِ حسین میں زمین و آسمان کو روتا ہوا محسوس کیا۔سرزمینِ کربلا میں مجھے خبر ملی کہ اظہار حیدر صاحب کا انتقال ہوگیااناللہ وانا الیہ راجعون زندگی کی بے ثباتی کا یقین ہو گیادعائے مغفرت  کے لئے ہاتھ اٹھ گئے۔خدا جانے کیا کیا یاد آگیا۔مجھے یاد ہے 1984 میں مرکزِ پاکستان میں منیر نیازی کی صدارت میں ایک مشاعرہ ہواتھا۔ میں شادی کے بعد اپنے خانگی معاملات میں مصروف تھی اسی لئے قلم سے رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔فون کی گھنٹی بجی ۔ دوسری جانب سے ایک بھاری بھر کم آواز آئی۔ میں مرکز پاکستان کا صدر اظہار حیدر بول رہا ہوں۔فلاں فلاں تاریخ کو مرکز میں مشاعرہ ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ بھی شعر کہتی ہیں اس لئے آپ ضرور تشریف لائیں۔ ادبی حوالے سے میری پہلی ایف۔آئی ۔آر درج ہو چکی تھی۔اگر نہ جاتی تو اشتہاری مجرم اس لئے یہی بہتر سمجھا کہ اقبالِ جرم کر لیا جائے۔اس قید با مشقت کو تا دم تحریر برداشت کر رہی ہوں۔ادبی زندگی کی جھیل میں یہ پہلا کنکر تھا جس سے موجوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔اور سات سال بعد ایک مرتبہ پھر قلم سے تجدید تمنا ہوئی۔میں خلوت پسند ایک معمولی تخلیق کار تھی اسی لئے محافل اور مشاعروں سے اکثر دامن بچاتی رہی مگر میرا پہلا تعارف یقیناًادبی حوالے سے اظہار صاحب کے مشاعرے سے ہوا۔ جس کی نظامت ظہورالالسلام جاوید کر رہے تھے۔اظہار حیدر صاحب اپنی بھاری بھر کم آواز کی طرح شخصیت کےا عتبار سے بھی ایسے ہی رعب دار تھے۔ریڈیو ابوظبی کی اردوسروس پر طویل عرصے تک ان کی آواز چھائی رہی۔لوگ اپنی زندگی کو مختلف خانوں میں بانٹ کر آسان کر لیتے ہیں۔مگر اظہار صاحب دشوار پسند انسان تھے اسی لئے انھوں نے یہ تقسیم گوارا نہ کی۔ وہ مکمل طور پر سماجی حوالوں سے مصروف عمل رہے۔ہم تخلیق کار خود کو شاعر یا ادیب کہلوا کر خوش ہوتے ہیں۔مگر اظہار صاحب اپنی پہچان پاکستانی سماجی کارکن کے طور پر کرواکے خوش ہوتے۔انہیں اپنی پاکستانیت پر ناز تھا۔آج کے زمانے میں یہ جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے اسی لئے پاکستانی کیمونٹی میں ان کی موت نے خلا پیدا کر دیا ہے۔میری ان سے آخری ملاقات پاکستان کالج ابوظبی میں ہوئی۔جب وہ کرکٹ چاچا کو ملوانے کے لئے طلبا و طالبات کے درمیان آئے تھے مجھے اپنی پہلی ملاقات  1984سے2009کی آخری ملاقات کے حوالے سے ان میں کوئی فرق نظر نہیں آیا

 ۔ربع صدی پہ محیط یہ ملاقاتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ جذبۂ تعمیر نے انہیں چین سے بیٹھنے نہ دیا کچھ قسمت نے بھی ساتھ نہ دیا صالحہ بھابھی کے انتقال کے بعدنرجس بھابھی بھی داغِ مفارقت دے گئیں انہوں نے سب کے ہوتے ہوئے صحرا میں زندگی گزار دی وہ ان پاکستانیوں میں سے تھے جن کے جذبہ ء تعمیر نے صحرا کو گلستان بنایا۔ اللہ ان کو اپنے بہترین جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ اور ان کے لواحقین کو صبرجمیل عطاکرے ادب کے حوالے سے مجھے امید ہے ان کے لواحقین ان کے کلام کی اشاعت پر ضرور  توجہ دیں گے

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE