Urdu Manzil


Forum

Directory

Overseas Pakistani

 

آن زبان اور جان

سلمیٰ اعوان
اسوقت جب گرمیوں کی تپتی دوپہروں کی مخصوص ویرانی اور سناٹا ڈیرے کے چاروں طرف اگی فصلوں اور سہاگہ کئے ہوئے کھیتوں پر تیرتا پھرتا تھا۔ نیم’ پیپل اور شیشم کے درخت ان کی ٹہنیاں’پتے ’ پتوں سے لٹکتے بُندے اور شاخیں سب اس احساس کو نمایاں کرتے تھے۔ بیر دین عرف بیرو بہاولپوری کونڈے کے کناروں پر میل سے لتھڑی پاؤں کی بے سُری انگلیاں جمائے گھوٹنے سے بھکڑا رگڑتے ہوئے اونچی آواز میں گارہا تھا۔
اٹ سٹ تے بھاکڑا کوار گندل
سبھے بوٹیاں باٹیاں جاننے ہاں
جتھے رن تے کھسم داویر ہووے
اوتھے بیٹھ کے صلح کرو اونے ہاں
’’واہ بیر دینا واہ‘‘
چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے چند ایک نے کہا۔ چوہدری جمال دین بھی حقے کی نے پرے کرتے ہوئے بولا۔
’’بس چھوڑ اسے اب۔ دو تارے پر کچھ سنا‘‘
تبھی چھٹی رسین کی سائیکل کی گھنٹی بجی۔ وہ کیکر اور بکائن کے پیڑوں کے جھنڈ سے نمودار ہوا۔
جمال دین کا کرخت چہرہ اس پر نظر پڑتے ہی یوں چمکا جیسے کسی گندی مندی جگہ پر ککر متا کھّمبی کا پودا۔
گرم جوشی سے آؤ آؤ منشی جی‘‘ کی آواز اس نے حلق کی گہرائی سے نکالی اور ساتھ ہی ملازم کو لسی لانے کے لیے کہہ دیا۔
سمندر پار سے آنیوالا خط اس نے مسکراتی آنکھوں ’ ہنستے ہونٹوں اور خوشی سے کانپتے ہاتھوں سے وصول کیا۔ منشی جی نے سالوں کا حساب جوڑتے ہوئے کہا ۔
’’خالد بیٹے کے آنے میں بس سات آٹھ ماہ رہ گئے ہیں۔ چوہدری جی اللہ پاک آپ کو بیٹے کی خوشیاں دیکھنی نصیب کرے‘‘۔
لفظ ’’آمین‘‘ کہنے میں ڈیرے کے ملازموں اور وہاں موجود دوسرے لوگوں نے بڑی فیاضی سے کام لیا۔ اب یہ تو خدا جانتا تھا کہ آواز کی گھن گرج کی شدت اندر سے کہیں دل سے پھوٹی تھی یا یہ سارا شور شرابا یونہی بس اوپر اوپر دکھاوے کا تھا۔
منشی جی کے جانے کے بعد اس نے خط کھولا اور اشتیاق سے اس پر اپنی عینک میں لپٹی آنکھیں جھکائیں۔ لیکن ابھی دوسطریں ہی پڑھی تھیں کہ سر چکرا گیا اور چہرہ تنور کی دہکتی ہوئی آگ کی طرح سرخ ہو گیا۔ خط اس کے بیٹے کا نہیں تھا۔ کسی امیرہ نامی لڑکی کا تھا۔
اس وقت ا سکا مضبوط دل زور زور سے بجتا تھا۔ ہاتھوں میں ہلکی ہلکی کپکپاہٹ تھی۔ ماتھا پسینہ پسینہ تھا۔
اردگردچارپائیوں پر بیٹھے لوگوںنے کہا۔
’’خیر صلا تو ہے نا چوہدری جی ۔اپنا بیٹا تو راضی خوشی ہے نا‘‘
اس نے ’’ہاںبھئی ہاں سب ٹھیک ہے‘‘ کہنے پر اکتفا کیا۔ نوکر سے پانی لانے کو کہا۔ جب وہ لبا لب بھرا گلاس اپنے ہونٹوں کو لگا رہا تھا وہاں موجود چند لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف یوں دیکھا تھا جیسے کہتے ہوں‘ خیر صلا ہرگز نہیں۔ کوئی گڑ بڑ والی بات ہے۔
پانی پی کر اس نے خط پر نظریں پھر دوڑائیں۔ مضمون یوں تھا۔

’’آپ کا بیٹا خالد جمال مجھ سے شادی کے لیے بضد ہے۔ خالد اچھا لڑکا ہے۔ لیکن الم ناک بات یہ ہے کہ وہ انسانوں کی نہیں زنخوں کی اولاد ہے۔ میں تکشک ناگن جیسی خوبصورت غصیلی اور آن بان والی لڑکی ایسے لڑکے سے شادی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اسے سمجھائیے کہ میرا پیچھا چھوڑ دے۔
اس نے لفافے کی بیرونی سطح دیکھی۔ برمنگھم کا پتہ درج تھا۔ وہ اسی وقت اٹھا۔ زنان خانے میں آیا۔
لمبے چوڑے آنگن کے بیچ میں ٹاہلی اور نیم کے درختوں کے جھنڈ تلے اس کی بوڑھی ماں رنگین سوتری سے بنی نفیس نقش کاری سے مزین پایوں والی چارپائی پر حقے کے کش لگاتی چوپال سجائے بیٹھی تھی۔
اسّی سال کی عمر میں بھی ا سکے سب اعضاء ٹھیک تھے۔ آواز میں دبدبہ اور گونج تھی۔ ذہن توڑ جوڑ کی سیاست میں چوکنا اور مستعد تھا۔ حقیقت میں وہ پتری تمباکو کی طرح تھیں ’ جس کو پینے سے بڑے بڑوں کو اچھو لگ جاتا ہے اور آنکھوں میں کھارا پانی اتر آتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر دور میں برداشت نامی لفظ سے ناآشنا رہی۔ ذرا سی حکم عدولی پر دوسرے کے بخیئے اُدھیڑ دینا اور اُسے رُسوا کر نا پہلا فرض سمجھتی۔ خالد پر جتنا حق وہ اپنا خیال کرتی تھی اس کا بیسواں حصہ بھی وہ کسی کو دینے کے لیے تیار نہ تھی۔
 کڑوالی دیوار کے سائے میں رابو اور جینی توی پر روٹیاں پکا رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ زور و شور سے اس واقعے کا ذکر کر رہی تھیں جو کل سوتروں اور اوڈوں کے درمیان ہوا تھا۔ خوب سر پھٹول ہوئی تھی۔ معاملہ تھانے تک جا پہنچا تھا۔ اوڈوں کی نیتی نے تھانے میں کھڑے ہو کر تھانے دار کو للکارا تھا اور رابو بار بار نیتی کی جی داری پر داد دے رہی تھی۔
کاڑھنی میں دودھ کڑ رہا تھا۔اس کی باس سارے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ اُپلے ہلکا ہلکا دھواں آہولے کے سوراخوں میں سے باہر چھوڑ رہے تھے۔ چارپائیوں پر سرخ مرچیں اور مکئی سوکھ رہی تھی۔
ماں جی نے باتیں کرتے کرتے رک کر گامے کو آواز دی۔
’’تمباکو کے گھٹے کھول کر دھوپ میں پھیلا دے۔ بدبخت تجھے تو کبھی کچھ یاد نہیں رہے گا۔ بس تھوڑا سارہ گیا ہے۔‘‘
بی بی شاہزاداں نے زور دار کش لیا۔ دھواں چھوڑا اور بولی۔
’’ستیاناس ہو سیم تھور کا ۔تمباکو کی ساری کڑواہٹ نکل گئی ہے۔ پینے کا مزا ہی نہیں رہا۔‘‘
وہ آنگن میں سے ہوتا ہوا بڑے کمرے میں آیا۔ کروشیئے کی چادر بچھے پلنگ پر اس کی بیوی رقیہ بیٹھی کروشیئے کی لیس اور سرخ پٹی سے منڈھے ہوئے دستی پنکھے سے اپنے آپ کو ہوا کر رہی تھی۔ رقیہ اس کی دوسری بیوی تھی۔‘‘
خالد جمال پہلی بیوی سے تھا جو اسے جننے کے دس دن بعد مر گئی تھی۔ رقیہ اس کی مرحومہ بیوی کی ممیری بہن تھی۔ سال بعد ہی ماں جی اسے بیاہ لائی تھی۔ رقیہ بیگم ایک بڑے زمیندار کی بیٹی ہونے کے باوجود اپنے وجود میں محبت و شفقت کی ایسی مٹھاس رکھتی تھی کہ اس سے ملنے اور باتیں کرنے کے بعد عام آدمی کو وہی لطف اور سرشاری محسوس ہوتی تھی جو راب اور مکھن کو باسی روٹی کے ساتھ نہار منہ کھانے سے ملتی ہے۔
وہ رقیہ کے پاس بیٹھ گیا اور خط اس کی طرف بڑھا دیا۔ رقیہ آٹھ جماعت پاس تھی۔ وہ خط پڑھتی رہی اور محمد جمال اپنی مونچھوںکو بل دیتے ہوئے فرش کو گھورتا رہا۔
ایک بار ’ دو بار ’ تین بار پڑھنے کے بعد ا ُسنے گردن موڑی اور شوہر کو دیکھا۔ اُسے ان میں حیرت و استعجاب کے رنگوںکے ساتھ ساتھ غصے کی سرخی بھی نظر آئی تھی۔
’’جی یہ کیا چکر ہے۔ میری تو سمجھ میں نہیں آرہا۔ اور ہاں کیسی بد تمیز لڑکی ہے؟ کموت دی مار ’بھلا ہمارا بیٹا کیوں زنخوں کی اولاد ہونے لگا؟۔
’’سمجھ میں میری بھی کچھ نہیں آرہا۔‘‘
دونوں دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ سوچتے رہے۔ غور کرتے رہے۔ مگر مسئلہ ایسا ٹیڑھاتھا کہ دماغ کی چولیں ڈھیلی ہو گئیں اور اس کا ٹیڑھا پن دور نہ ہوا۔ حل طلب نکتہ بس اتنا سا تھا کہ خالد لڑکا تو اچھا ہے مگر زنخوں کی اولاد ہے۔ بس یہ نکتہ اتنا پھیل جاتا کہ اس کے دائر ے کسی کنارے نہ لگنے دیتے۔ رقیہ بیگم نے یہ بھی کہا کہ اسے ہمارا ایڈریس کیسے ملا۔
’’اس میں کوئی الجھن نہیں۔ خالد سے لے لیا ہو گا۔ ‘‘
’’یونہی باتوں باتوں میں پوچھ لیا ہو گا۔ ‘‘
کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد وہ یونہی چکرایا ہوا اُٹھا۔ اس نے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔
’’تم ماں جی سے کوئی ذکر نہ کرنا۔ خوامخواہ چیخنا چلانا شروع کر دیں گی اور بات پھیل جائے گی‘‘۔
رقیہ بیگم لیٹ گئی۔ ا سکی نظریں لمبے چوڑے کمرے کی ٹی آر والی چھت کو گھورنے لگیں۔ دستی کام کی پنکھیا اس کے سر پر رکھی ہوئی تھی جس کی روغنی ڈنڈی کو اس کے دائیں ہاتھ نیتھاما ہوا تھا۔
خالد بہت ضدی ’ سرکش ’ ہٹ دھرم اور غصیلے بچے کی صورت میں پروان چڑھا تھا۔ دادی نے اس کے اور رقیہ بیگم کے درمیان ہمیشہ سوتیلے پن کی خلیج کو کم کرنے کی بجائے گہرا کیا۔ کہنے کو خالد اس کی پھوپھی زاد بہن کا بیٹا تھا۔ مگر نہ تو اس نے اس کی طرف کوئی توجہ دی اور نہ ہی دادی پھوپھی نے اس کی توجہ نئی ماں کی طرف مبذول کرائی۔ شروع شروع میں رقیہ نے اسے پیار کرنا چاہا تو وہ بدک کر یوں پیچھے ہٹا جیسے وہ کوئی اچھوت ہو۔
جمال کی ایک بہن اور ایک بھائی تھا۔ بہن شہر میں رہتی تھی اور بھائی اپنے حصے کی زمین پر۔
ماں جی کو اکلوتی بیٹی بہت پیاری تھی۔ اس کی بڑی بیٹی سے وہ خالد کی شادی کرنا چاہتی تھی۔ اپنے طور پر وہ اس رشتے کو پکا کئے بیٹھی تھی۔
کئی سال پہلے ایک دن جب موسم تپ رہا تھا۔ سورج سوا نیزے پر آیا لگتا تھا۔ ماں جی شیشم کے درخت کے نیچے بیٹھی اپنی قمیض کے بٹن کھولتے ہوئے بار بار کہتی جا رہی تھی۔
’’اللہ ڈیرے پر ایسی گرمی کبھی نہیں پڑی۔ قیامت ہی تو لگتی ہے۔‘‘
ایسے میں خالد حویلی میں داخل ہوا تھا۔ وہ لاہور کے چوٹی کے کالج میں پڑھتا تھا۔ چھٹیوں میں اپنے جیسے بے فکرے دوستوں کی ایک کھیپ کے ساتھ گاؤں آیا ہوا تھا۔ اس وقت سفید نیکر ’سفید قمیض ’سفید جرابوں اور ہاتھوں میں لہراتے ٹینس کے ریکٹ اور پسینے سے ترلال گلابی چہرے کے ساتھ بورس بیکر کا جڑواں بھائی نظر آتا تھا۔ چند لمحوں کے لیے وہ دادی کے پاس سائے میں آکھڑا ہوا تھا۔ رابو حقے پر چلم رکھ رہی تھی۔ اس کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے بولی۔
’’ماشاء اللہ خالد تو ماں جی اب جوان ہو گیا ہے۔ نینی سے اس کا بیاہ کر دیں۔
اور خالد کو جیسے بجلی کا کرنٹ لگا۔ اس نے ریکٹ رابو کے سر پر مارتے ہوئے دادی کو گھورا۔
’’یہ کیا بکواس کرتی ہے۔‘‘
اور ماں جی پوپلے منہ سے ہنسنے لگی۔
’’بیٹا ٹھیک کہتی ہے وہ۔ اب تیرا کچھ بندوبست ہو جانا چاہیے‘‘۔
اور خالد نے اپنے داہنے پاؤںکو اٹھا کر اس قدر زور سے زمین کے سینے پر مارا کہ ماں جی کے اردگرد مکھیوں کی طرح منڈلاتی پھرتی کامیاں سہم کر ایک طرف ہو گئیں۔ اس کی نظروں سے یہ اندازہ لگانا کہ اس کے اندر کیسی آگ بھڑک رہی ہے؟ چنداں مشکل نہ تھا۔
’’میں بل ٹیریر ہوں۔ آپ کی وہ چہیتی چچی آنکھوں والی نواسی اور لنگور جیسی صورت والی پوتی دونوں کو پھاڑ کھاؤں گا۔ اور ہاں آپ مرشد آباد کی عیار منی بیگم بننے سے باز آجائیے۔ وگرنہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے چالباز وائسراؤں کی طرح آپ کی بوٹیاں بھی نوچ کھاؤں گا ۔
وہ بگولے کی طرح اڑتا یہ جا وہ جا۔
اس وقت رقیہ بیگم گھی تاڑ رہی تھی۔ کفگیر سے لسی اُتار اُتار کر چھوٹی پتیلی میں ڈالتی جاتی تھی۔ اس نے یہ سب دیکھا اور سنا اور پھر منہ پھیر لیا کہ کہیں اس کے چہرے پر چمکتی مسکراہٹ ساس نہ دیکھ لے۔ وہ نہ تو نند اور نہ ہی اس کی بیٹی کو پسند کرتی تھی۔ شادی ہو جانے کی صورت میں گویا اسے تین ساسوںکا سامنا کرنا تھا۔
اس وقت ا سکے اندر کیسی پھلجھڑیاں پھوٹ رہی تھیں؟ یہ کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔ ماں جی نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔
اور گھی کا گڑوا اٹھا کر اندر لے جاتے ہوئے اس نے اپنے آپ سے کہا۔
’’چلوچھٹی ہوئی یہ کانٹا بھی نکلا‘‘۔
رقیہ بیگم کے ہاں تین بیٹیاں تھیں بہت خواہش تھی اسے بیٹے کی۔ مگر اللہ نے پوری نہ کی۔
عام کھاتے پیتے امیر کبیر گھرانوں کے برعکس خالد پڑھنے لکھنے میں بہت تیز تھا۔ وہ ایک غیر معمولی لڑکا تھا۔ ہوسٹل میں شہزادوں جیسی شان سے رہتا مگر کیا مجال کہ پڑھائی اور کھیلوں میں کہیں سے جھول آئے۔ ایف ایس سی میں ٹاپ کیا اور میڈیکل کے لئے چلا گیا۔ میڈیکل میں گولڈ میڈل لیا۔ ایک سال ہاؤس جاب کرنے کے بعد اس نے اعلان کر دیا کہ وہ نیورو سرجری میں سپیشلائیزلیشن کے لیے انگلینڈ جائے گا۔ وہ گورنمنٹ کے وظیفے کا انتظار نہیں کر سکتا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا تھا کہ جوان ہونے پر اس کا رویہ بہنوں اور سوتیلی ماں کے ساتھ بہتر ہو گیا تھا۔
اور اب یہ خط ان کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا تھا۔ بہت سوچ و بچار کے بعد فیصلہ ہو اکہ رقیہ بیگم اسے خط لکھے۔ یہ فیصلہ چوہدری جمال کا تھا ۔رقیہ بیگم نے لکھا۔
’’بیٹی تمہارے خط نے ہمیں پریشانی اور سوچوں کی گھمن گھیریوں میں پھنسا دیا ہے۔ ہمارا ذہن اُلجھ کر رہ گیا ہے۔ گرہوں کے کھولنے میں میرا ذہن بہت تیز ہے۔ لیکن یہ گرہ جو تمہارے خط نے لگائی ہے کسی طرح کھلنے میں نہیں آرہی ہے۔ پیاری بچی خالد تو ماشاء اللہ بڑا ہونہار بچہ ہے۔ یہ بات ماں ہونے کے ناطے نہیں کہہ رہی ہوں بلکہ اس کا اعتراف تم نے خط میں بھی کیا ہے۔ بیٹی یہ تو بتاؤ وہ زنخوں کی اولاد کیونکر ہوا؟ کیا اس نے کوئی ایسی حرکت کی ہے؟ طبیعت کا ضدی ضرور ہے مگر دل کا برا ہرگز نہیں۔ ہم تو اس کی خوشی میں خوش ہیں؟ اپنے بارے میں سب کچھ لکھو تاکہ ہماری پریشانی دور ہو۔
اب رقیہ بیگم کو روز انتظار رہتا تھا۔ پہلے چند رو تو خط پہنچ جانے کے خیال میں گزرے۔ پھر چند روز اس کی طرف سے جواب دینے اور پاکستان آنے کے اندازے لگانے میں بیتے۔ مگر خط پھر بھی نہ آیا۔ اب اس کی تشویش اور بڑھ گئی۔ کبھی وہ سوچتی کہ بیمار نہ ہو۔ کبھی خیال آتا کہیں چلی نہ گئی ہو؟ کبھی دعائیں مانگتی اللہ مولا اس نے خالد سے شادی کر لی ہو۔
اور پھر کوئی ڈھائی ماہ بعد اس کا خط آیا۔ اس دن چوہدری جمال اپنے چند دوستوں کے ساتھ شکار کے لیے گیا ہوا تھا۔ ملازم ساری ڈاک زنان خانے میں لے آیا۔ ایروگرام دیکھتے ہی اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ خط کھولا اور پڑھنے بیٹھ گئی۔
مناسب سے القاب کے بعد اُس نے لکھا تھا۔
نام سے تو آپ متعارف ہو ہی چکی ہیں۔ گوجرانوالہ میں گھر ہے۔ لندن پڑھنے کے سلسلے میں آئی ہوئی ہوں۔ برمنگھم میری دوست کا گھر ہے۔ جہاں میں چھٹیاں گزارنے گئی تھی۔
گذشتہ تین دنوں سے ہم دونوں کے درمیان امریکہ جانے اور نہ جانے پر بحث ہو رہی تھی۔ زیبی میری دوست) امریکی گلوکار مرحوم ایلوس پر سیلے کی ساتویں برسی پر اس کے آبائی علاقے گریس لینڈ جانا چاہتی تھی۔ زیبی پرسیلے کی دیوانی ہے۔ میرے خیال میں یہ محض وقت اور پیسے کا ضیاع تھا۔ زیبی مجھ سے اس سلسلے میں بہت الجھی تھی اور نتیجتاً میں نے ہار مان لی تھی۔
اس دن ہم نے ضروری شاپنگ کی ۔ جب پانچ بجے گھر واپس آئے تو دیکھا برآمدے میں ایزی کرسیوں میں دھنسے دو نوجوان لڑکے ہنس رہے تھے۔ زیبی نے مجھے اور میں نے اُسے دیکھا۔ میری نگاہوں میں استفسار کی علامات محسوس کرتے ہوئے وہ بولی۔
’’معلوم نہیں ہونگے کوئی بھیجی کے(اس کا بھائی پرویز نثار) لفنگے دوست۔
کھانے کی میز پر تعارف ہوا تو احساس ہوا کہ وہ لفنگے تو ہرگز نہ تھے۔ اچھے بھلے ڈیَشنگ قسم کے خوب پڑھے لکھے لڑکے ہیں۔ خالد سے میری یہ پہلی ملاقات تھی۔ صورت کے اعتبار سے اس میں اور یورپین لڑکوں میں کچھ زیادہ فرق نہ تھا۔ مقام شکر تھا کہ اس کی آنکھیں سیاہ اور بال بھی سیاہی مائل تھے وگرنہ شاید میں اسے یک جنبش رد کر دیتی۔
رات کا کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔ خالد کے بارے میں یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اسے محفل پر چھا جانے کا فن آتا تھا۔ البتہ وہ بور انسان بھی نہیںتھا۔
بات چیت سے اس کی اعلیٰ ذہانت کا پتہ ضرور چلتا تھا۔ کھانے کے بعد کافی پی گئی اور پھر تاش کی بازی جمی۔ ایک پاؤنڈ کے حساب سے رمی کھیلی گئی اور وہ ہارا۔ ا سنے سادگی سے کہا۔
’’مجھے تاش کھیلنا نہیں آتا اور نہ میں نے کبھی سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ مگر میں کل پھر کھیلوں گااور ہارے ہوئے سارے پیسے واپس لوں گا‘‘۔
اس نے میری طرف بغور دیکھا تھا۔ میں اس کے پچیس پاؤنڈ اور باقیوں کے پچاس پاؤنڈ اپنے بیگ میں ٹھکانے لگا رہی تھی۔ میری آنکھوں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ میں نے بیگ کو کندھے پر لٹکایا اور کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
’’کل آئے گا تو دیکھا جائے گا‘‘۔
صبح دیر سے آنکھ کھلی۔ یوں بھی میں بہت سوتی ہوں۔ ناشتے کی میز پر آئی۔ سب لوگ فارغ ہو چکے تھے۔ اکیلے ناشتہ کیا۔ ثوبیہ لان میں سبزیوں کی کانٹ چھانٹ میں لگی ہوئی تھی۔ وہاں پہنچی تو اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’آج تیار رہنا۔ خالد ساری رات کھیلتا رہا ہے‘‘۔
’’میری جان میں رمی کی مانی ہوئی کھلاڑی ہوں۔ کوئی مجھے مات نہیں دے سکتا۔ رنگ میں تو کبھی کبھار بازی الٹ جاتی ہے مگر رمی میں نہیں‘‘۔
دو بجے بازی جمی اور واقعی جو اس نے کہا تھا سچ کر دکھایا۔ اس نے اپنے ہارے ہوئے پاؤنڈ ہی نہیں نکلوائے بلکہ مزید بھی جیتے۔ صرف پانچ پاؤنڈ ہارنے کے بعد میں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے‘‘۔’’بیٹھئے اتنی جلدی حوصلہ ہار گئیں‘‘۔ اس کی نظریں تمسخر سے چھلکی پڑتی تھیں۔
خوبصورت پنک کڑھت والے کرتے پر میرے سیاہ لانبے بال بکھرے ہوئے تھے۔ میرے اٹھنے سے وہ بل کھا کر آگے آگئے تھے جنہیں ایک جھٹکے سے میں نے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
’’میں کسی لینڈ لارڈ کی بیٹی نہیں ہوں جو پیسوں کا یوں تفریح میں ضیاع کرتی پھرے۔ پارٹ ٹائم جاب کرتی ہوں اور پڑھائی کے لیے پیسہ اکٹھا کرتی ہوں‘‘۔
اس نے میری صاف گوئی کو پسند کیا۔
میںاور زیبی امریکہ نہیں گئیں۔ ہفتے بعد میری لندن واپسی اس کے ساتھ ہی ہوئی۔ راستے میں اس نے کہا تھا۔
’’بہت سی لڑکیوں سے مل چکا ہوں۔ آپ سے زیادہ خوبصورت تھیں مگر معلوم نہیں آپ کیوں اتنی اچھی لگیں؟۔
خوبصورت لڑکیاں بالعموم ذہین نہیں ہوتیں۔ مگر مجھ میں دونوں خوبیاں ہیں۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
 تھوڑی دیر بعد بولا۔
’’میرے بارے میں کیا خیال ہے‘‘؟
’’بس گزارا ہے‘‘۔ میرے انداز میں شرارت آمیز سنجیدگی تھی۔
’’سنو مجھ میں اچھا لگنے کی ساری خوبیاں موجود ہیں۔ غلط بیانی سے کام مت لو‘‘۔
اور میری ہنسی چھوٹ گئی۔ اُسے اپنے آپ پر کتنا اعتماد تھا۔
 مجھے ڈراپ کرنے کے بعد جب وہ جانے لگا تو بولا۔
’’امیرہ میں کل شام آؤں گا۔ کہیں جانا مت‘‘
اور پھر یہ ہمارا معمول بن گیا۔ ہماری شامیں اکٹھی گزرنے لگیں۔ اس کی طبیعت میں غصہ اور ضد تھی جو بات وہ ایک بار منہ سے کہہ دیتا اس پر فوری عمل چاہتا۔ کبھی کبھی مجھے اس کی یہ بات اچھی لگتی مگر کبھی کبھی اس سے الجھن بھی ہوتی۔
 

ایک بار جب ہم دریائے ٹیمز کے کنارے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وہ مجھے اپنے ماں باپ ’دادا ’دادی اور دوسرے رشتہ داروں کے متعلق بتا رہا تھا۔ مجھے دفعتاً احساس ہوا کہ میں انہیں نہ صرف جانتی ہوں بلکہ میری دور پار کی رشتہ داری بھی ہے۔ میں نے اپنے یقین کو پختہ کرنے کے لیے چند اور باتیں پوچھیں۔ جب یقین میں شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی۔ تب واپس آتے ہوئے میں نے بہت دھیمی مگر مضبوط آواز میں اُس سے کہا تھا۔
’’خالد میں تم سے شادی نہیں کروں گی‘‘۔
’’کیوں‘‘ ؟
حیرت زدہ سا وہ چلایّا۔ بریک لگی اور پہیے زور سے چرچرائے۔ اردگرد کے لوگ متوجہ ہو گئے۔
’’ڈھنگ سے گاڑی چلاؤ۔ سڑک پر تماشا بننے کی ضرورت نہیں‘‘۔
’’وجہ بتاؤ و’’وگرنہ گاڑی ابھی ٹیمز میں گرا دوں گا‘‘۔
 

’’میری جان اتنی سستی نہیں اور میرا خیال ہے تمہاری بھی نہیں‘‘۔
’’اصل بات کرو‘‘ وہ دھاڑا۔
اور میں نے بتانا شروع کیا۔۔
تمہاری پھوپھی سرداراں بیگم جو گوجرانوالہ میں رہتی ہیں۔ ہمارے ان سے دیرینہ مراسم تھے۔ لیکن ان مراسم کی نوعیت صرف بڑے اور بزرگ افراد کی ایک دوسرے کے گھروں میں آمدورفت تک ہی محدود تھی۔ نہ تو کبھی ان کے بچے ہمارے ہاں آئے اور نہ ہی کبھی ہم نے جانے کی ضرورت محسوس کی۔
میرا ایم ایس سی کا آخری سال تھا جب تمہاری پھوپھی نے اپنے بڑے بیٹے تابش کے لیے میرا پروپوزل دیا۔
اماں نے جی جان سے اس رشتے کو پسند کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ پرانی باڑھ کو نیا چھاپہ لگے گا۔ رشتہ داری اور مستحکم ہو جائے گی۔
منگنی کی رسم ادا کرنے تمہارا والد’ نانا اور پھوپھا آئے۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسے قد آور اور فولادی جسم والے زمیندار دیکھے تھے۔ ان کے سروں پر ابرق لگی پگڑیاں تھیں جن کے اونچے شملے ہوا سے لہراتے تھے۔ بہترین لٹھے کے تہمبند جن کے ڈھائی بالشت لڑ نیچے لٹکتے تھے۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ میری ہتھیلی پر ہزار ہزار کے کھڑکھڑاتے نوٹ رکھے اور کہا۔
’’امیرہ بیٹی اب ہماری ہوئی۔‘‘
 

منگنی کو کوئی چھ ماہ گزرے ہونگے جب اسے توڑ دیا گیا۔ وجہ جو سننے میں آئی وہ کچھ اس قسم کی تھی کہ لڑکی بہت پڑھی لکھی ہے۔ خاندان میں نباہ نہیں کر سکے گی۔
’’خالد‘‘۔
میں نے ایک لمحہ توقف کے بعد کہا۔
’’جس خاندان کے بزرگوںکو اپنی زبان کے احترام کا احساس نہ ہو۔ جس خاندان کے اونچی پگڑیوں والے اپنی مانگ کو بغیر معقول عذر اور جواز کے چھوڑ دیں۔ میں اس خاندان کے کسی بھی فرد سے دوبارہ ناطہ جوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ایک جیالے اور جی دار مرد کے لئے اپنی زبان اور آن جان سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ میں انسان کے بچے سے شادی کروں گی’ زنخوں کی اولاد سے نہیں۔
میں اس کی گاڑی سے یہ کہتے ہوئے نیچے اتر آئی اور بس میں بیٹھ کر اپنے ہوسٹل آگئی۔ خالد میرے تعاقب میں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں اسے آزما کر دیکھوں۔میں ہنستی ہوں کہ میں نے بڑے بڑو ں کو آزما لیا ہے ’تم جیسے کس گنتی شمار میں ہو۔
آخر میں وہی نام تھا۔
رقیہ بیگم نے خط کو تہہ کیا اور اسے اٹیچی کیس کی جیب میں سنبھالتے ہوئے باہر آئی۔ اُس وقت اس کے لبوں پر بڑی زہریلی مسکراہٹ تھی۔

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE