Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

محترمہ سلمیٰ اعوان صاحبہ کا دلچسپ سفر نامہ

میرا گلگت وہنزہ

سلمیٰ اعوان کے فن میں ایک ایسا سحر ہے کوئی ایسا جادو ہے جوپڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے اور اسے آخر دم تک جکڑے رکھتا ہے۔ سلمیٰ اعوان کے ہاں مشاہدے کی اتنی خوفناک گہرائی ہے کہ جو بھی کردار ان کے سامنے آتاہے اس کے ظاہری خدوخال سے زیادہ وہ اس کے باطن کا ایسا ایکس رے لیتی ہیں کہ کوئی رگ ’ کوئی نس ’ کوئی ورید پوشیدہ نہیں رہتی۔ انسانی کرداروں کے علاوہ مناظر و ماحول کی تصویر کشی میں بھی مشاہدے کا یہ کمال ملتا ہے۔ اور یہ ایک ایسی خوبی ہے جس کی ہمارے ادب میں صرف ایک مثال راجندر سنگھ بیدی ہی کی پیش کی جا سکتی ہے۔

سلمیٰ کا اسلوب رواں ’پر کشش ’شگفتگی اور اخلاص لیے ہوئے ہے۔ ان کے سفر نامے ’’میرا گلگت و ہنزہ‘‘ میں قدم قدم پر اپنایت و محبت کا جو اظہار تحریر کے ایک ایک لفظ سے چھلکا پڑتا ہے اس نے سفر نامے کو ادب پارہ بنا دیا ہے۔ یہ ادب پارہ اردو کی سفر نامہ نگاری کی تاریخ میں مدتوں روشنی کے مینار کا کام کرتا رہے گا۔

احمد ندیم قاسمی

پیش لفظ

سفرنامہ نگاری میں تھامس جے کرومبی نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ ادب کی اس صنف کو اس نے اپنے منفرد اسلوب سے ایک نئی اور انوکھی جہت دی ہے۔ ابن بطوطہ کو میں نے کرومبی کے حوالے سے پڑھا۔ سچی بات ہے۔ اس عظیم سیاح کی چوالیس ممالک پر پھیلی سیاحت نے مجھے سحر زدہ کر دیا تھا۔

ایڈونچر سے معمور دونوں سیاحوں کی پر آشوب سیاحت ’چودھویں اور بیسویں صدی کے تہذیبی موازنے قرون وسطیٰ اور وسط ایشیا کے افسانوںی شہروں کی داستانیں۔

میں دنوں نہیں ’مہینوں مضطرب رہی۔ وسائل اور حالات کی کم مائیگی نے مجھے تڑپائے رکھا۔

اے کاش میں کرومبی کی سفری ساتھی بن سکتی۔ مردان خانوں سے آگے زنان خانوں کے دروازوں کے بند پٹ دھڑ سے کھول کر اندر جا گھستی ’اس زندگی کی جھلک دیکھتی اور اس پر لکھتی کہ جس کے بغیر تہذیبی تاریخ ادھوری رہتی ہے۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر لکھنے کے لئے میں گھروں کے بند دروازے کھول کر بہت اندر جا گھسی تھی۔

آج کا نقاد اگر سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے تو کتاب میں تہذیبی خوشبو کے ساتھ ساتھ ایک کٹھن اور ایڈونچر سے معمور سفر کی دستاویزی شہادت اسے ملے گی۔

ہاں مگر کل کا نقاد اس دور کی مخصوص مہک اور سچائی کی زیادہ بہتر طریقے سے گواہی دے گا۔         سلمیٰ اعوان

 

باب: 1

ذکر اُس پری وش یاسین کا ۔ ۔ ۔

من اندر اِک آگ سی سلگے

سچ تو یہ تھا کہ اس شب میرے دل پر ایسی ہی جھری پڑی تھی جیسی سیمنٹ کی کسی دیوار پر تیزدھار کے چاقو‘ چھری یا کسی چٹانی پہاڑ کے سینے پر الیکٹریکل ہلٹی سے پڑتی ہے۔

ایک اونچے فائیو سٹار ہوٹل کی رات کا وہ پہلا پہر کسی البیلی کشمیری حسینہ کی مانند جوان تھا۔ جگمگاتی روشنیوں نے چہروں کا ایک ایک خم اور نقش واضح کر رکھا تھا۔ ویٹنگ لاؤنج میں میرے دائیں ہاتھ بیٹھی تیس پینتیس کے چکر میں بل کھاتی ایک دل کش خاتون ’’گیمبیا‘‘ کے مشرقی حصے کے ’’تاکی‘‘ قبائل کے شادی بیاہ کی دلچسپ رسومات کا ذکر زور و شور سے کر رہی تھی۔ بڑی کامیاب داستان گو نظر آتی تھی۔ ہاتھوں اور آنکھوں کی حرکت سے ایسا سماں باندھ رکھا تھا کہ بارہ تیرہ کا ٹولہ پوری طرح اس کی گفتگو کے سحر میں جکڑا ہوا اپنی اپنی نشستوں پر سے گردنوں کو کندھوں سے آگے لڑھکائے افریقہ کے ملک ’’گیمبیا‘‘ کی داستان سن رہا تھا۔

بیان جاری تھا۔

بالغ لڑکیوں کے گھر بسانے کے لئے ایک ایسی رات کا انتخاب کیا جاتا ہے جب آسمان پر نہ تو چاندہو اور نہ ستارے‘ مطلع ابر آلود ہو‘ ہر سو خاموشی اور سکون ہو‘ کسی شخص کو آگ تک جلانے کی اجازت نہیں ہوتی‘‘۔

جب اچانک ایک نوخیز لڑکی عقبی نشست سے اٹھ کر سامنے آئی۔ شانوں پر لہراتے بالوں کو ایک جھٹکے سے پیچھے کرتے ہوئے وہ جھکی۔ سچی بات ہے وہ من وعین امریکی فلم سٹار ’’جوڈی فوسٹر‘‘ کی مانند نظر آئی تھی۔ وہی ناگن ’’جوڈی فوسٹر‘‘ جس کے عاشق صادق ’’رچرڈسن‘‘ نے صرف اسے متوجہ کرنے اور اپنی طرف مائل کرنے کے لئے صدر ’’ریگن‘‘ پر قاتلانہ حملہ کر ڈالا تھا۔

اور میں نے بے اختیار اپنے آپ سے کہا تھا: ’’ارے صدر ریگن تو رہا ایک طرف ایسی لڑکی کے لئے تو لاکھوں قتل کئے جا سکتے ہیں‘‘۔ وہ آگے بڑھی۔ کمان جیسے ابروؤں کو اس نے ادائے ناز سے جنبش دی اور بولی۔

’’بھئی ہمارے تو اپنے ملک کے رسوم و رواج اتنے دلچسپ اور خوبصورت ہیں کہ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ وادی یاسین میں ’’بوپھاؤ‘‘ کا تہوار دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔

وادی یاسین‘‘

ایک ماڈرن سی خاتون نے زیر لب کہا۔ اس کی آنکھوں سے چھلکتی حیرت اس کی لاعلمی کو واضح کرتے ہوئے یہ بھی بتا رہی تھی کہ وہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ علاقہ کہاں واقع ہے؟

’’کمال ہے ان پڑھی لکھی فیشن ایبل عورتوں پر۔ یہ اپنے ملک کے علاقوں سے بھی ناواقف ہیں‘‘۔

پھر اُس نے لانبی گردن اوپر اٹھائی۔ کومل سی ناک کے نتھنے پھُلاتے ہوئے بولے

ہمارے لوگ بھی عجیب ہیں۔ حُسن فطرت اور سیاحت کے لئے یورپ اور امریکہ بھاگے جاتے ہیں اور نہیں جانتے ہیں کہ ان کے اپنے ملک میں ایسی خوبصورت اور دل آویز جگہیں ہیں۔ جنہیں غیر ملکی سیاحوں نے جنت نظیر کہا ہے۔ گلگت کی وادیاں اشکومن‘ یسین و نگر‘ ہنزہ‘ چٹور کھنڈ اور دیامر کی وادیاں‘ داریل اور تانگیر۔ خدا گواہ ہے انسان ان کے حسن کو دیکھ کر گنگ رہ جاتا ہے۔

وہ پل بھر کے لیئے رکی۔ چہرے پر یاس اور دکھ کے رنگ بکھیرتے ہوئے سلسلہ کلام دوبارہ جوڑا۔

ان کی غربت اور مسائل جان کر بندہ بے اختیار سوچتا ہے کہ یہ ایک ترقی پذیر ملک کے علاقے ہیں۔ ’’ملکہ دشتی‘‘ جیسے حسن کی مالک عورتیں اور ’’سمیسن‘‘ جیسے جری جوانوں کے اجسام کو لنڈے کے کپڑے بھی میسر نہیں۔ خواتین کی تنظیموں‘ سیاسی پارٹیوں‘ مذہبی راہنماؤں اور لکھاریوں کو ان علاقوں میں جانے اور وہاں کے بارے میں جاننے کی توفیق نصیب نہیں۔ اس لئے کہ انہیں تصویریں اتروانے اور چھپوانے‘ بیانات جاری کرنے اور پبلیسٹی حاصل کرنے کے نت نئے طریقوںکو پلان کرنے سے فرصت ہو تب نا۔

وہ دل کش اور خوبرو لڑکی جو سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک جدیدیت کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی اپنی سوچوں میں کس قدر محب وطن تھی۔ اس وقت ولیم ٹیل بنی ہاتھ میں کمان پکڑے طنز کے تیر پر تیر چھوڑتی چلی جا رہی تھی۔ اس کے تیروں کی بوچھاڑ سے کوئی اور زخمی ہوا یا نہیں ٬ یہ میں نہیں جانتی تھی پر میں چھلنی چھلنی ہو گئی تھی۔

اس چلبلی لڑکی نے میرے اندر کے مہم جو ادیب کو جگا ڈالا تھا۔ جو سالہا سال سے مصلحتوں کے تحت دل کے کسی گوشے میں سکڑا سکڑایا پڑا تھا۔ دراصل اٹھائیس سال تک پڑھنے اور ڈگریاں حاصل کرنے اور من موجی زندگی گزارنے کے بعد گھر بسانے کا فطری احساس ان سب جذبوں پر غالب آگیا تھا۔ جس میں شہرت اور ناموری حاصل کرنے اور اپنے آپ کو ایک اچھے ادیب کے طور پر منوانے کے عزائم شامل تھے۔ میں عورت کی فطری جبلت کے ہاتھوں بے بس ہو گئی تھی اور عمر کی اس حد پر پہنچ کر یہ احساس بھی قوی ہو گیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اب بقیہ عمر کنوارپنے کی نذر ہو جائے۔

اماں کے وظیفوں اور دعاؤں نے جس کے لڑ لگایا وہ بلاشبہ پیار کرنے کے قابل تھا۔ شیر افگن جیسا۔ پر گھر کی راجدھانی کے ظلّ سبحانی مہابلی کے سامنے پورا پورا گیدڑ تھا۔

ظلّ سبحانی دراصل پکے پکے لارڈ کلائیو تھے۔ وہی چہرہ مہرہ۔ ویسا ہی رنگ و روپ‘ وہی انداز‘ وہی دبدبہ مجھ جیسی اڑتی چڑیا پنجرے میں قید ہو گئی تھی۔ سسرال نے ناک میں نتھ نہیں نکیل ڈال دی تھی۔ جس نے ناک کے نتھنے چھوڑ براچھیں بھی چیر دی تھیں۔ سارے عزائم اور خواب چولھے پر پکتی ہنڈیا سے نکلتی بھاپ کی مانند فضا میں تحلیل ہو گئے تھے۔ عیار لومڑی کی طرح لمبے چوڑے گھر کے ایک کھڈے لگی اس کٹھن وقت کو جس میں ازدواجی زندگی کے تحفظ کا پٹڑہ ہو سکتا تھا‘ بچاتی’ پاؤں اندر ہی اندر مضبوط کرتی ’ماہ و سال اپنے اوپر سے گزارتی چلی جاتی تھی۔

پرسی کلاس‘‘ کی یہ پڑھی لکھی عورت جس کے اندر اپنے آپ کو منوانے اور شہرت حاصل کرنے کے جراثیم گو کڑے حالات کی اینٹی بائیوٹک دواؤں سے نڈھال ضرور ہو گئے تھے۔ پر ابھی مرے نہیں تھے اب دوبارہ زندہ ہو رہے تھے۔ وہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح ترقی پذیر کا ٹھپہ ماتھے سے پونچھ کر اسے ترقی یافتہ جیسے خوش رنگ جھومر سے سجانا چاہتی تھی۔

پر مصیبت تو یہ تھی کہ لڑ لگنے والا ایسا امن پسند تھا کہ زندگی کی رواں دواں ندی میں اُسے طغیانی چھوڑ ہلکے سے بھنور بھی پسند نہ تھے۔

ایک بار دورے پر کوئٹہ جا رہا تھا۔ میں نے بریف کیس تیار کیا۔ اسے پکڑایا اور کہا

مجھے بھی ساتھ لے چلتے کوئٹہ نہیں دیکھا۔ دیکھ لیتی اسی بہانے‘‘۔ اپنے اپ پر کلون کی بارش کرتے ہوئے لڑلگنے والے نے گھوم کر یوں دیکھا جیسے میں پاگل ہو گئی ہوں۔

لو تمہیں کہاں گھسیٹتا پھروں گا۔ میں تو وہاں کام بھی ڈھنگ سے نہ کر سکوں گا۔دھیان تم میں ہی اٹکا رہے گا کہ کہیں کوئی رکشہ‘ ٹیکسی والا ہیر پھیر نہ کر جائے‘‘۔

میں نے دھیرے سے کہا۔

میں انجانی جگہوں‘ انجانے شہروں‘ ناواقف راستوں اور اجنبی لوگوں سے کبھی نہیں گھبراتی۔ ہمیشہ راستے نکال لیتی ہوں اور میرے ساتھ کبھی کوئی ہیرا پھیری نہیں ہوئی‘‘۔

اور بریف کیس کو زور دار جھٹکا دیتے ہوئے اس نے طنزاً کہا۔

عجیب عورت ہو۔ یہاں اجنبی جگہ پر سونا مشکل ہو جاتاہے۔ میں دوروں سے جان بچاتا پھرتا ہوںمار سارا سکون غارت ہو جاتا ہے‘‘۔

تب میں نے ہونٹوں کو بڑی گھودوئی سے نہیں سیا ’چھوٹی سے سیا۔ چھوٹے چھوٹے توپے لگائے۔ اس لئے کہ میرے تلووں کے نیچے جو زمین تھی وہ رتیلی تھی اور میرے پاؤں سرک سرک جاتے تھے۔

اور جب رتیلی زمین موزائق کے فرش میں بدلی۔ اس وقت زندگی کے ازدواجی پہلو گلے گلے تک سیرابی پا چکے تھے۔ گھر کا سکون ڈسنے لگا تھا۔ جی چاہتا تھا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہواؤں میں اڑتی ابابیلوں کی طرح انجانے دیسوں کی طرف نکل جاؤں ’’رائیڈر ہیگرڈ‘‘ کے ’’میکومیزن‘‘ اور ’’ہنسیں‘‘ کا روپ دھار لوں۔ نئی جگہوں کے اسرار جانوں۔ ’’ڈور تھی ڈکس‘‘ بن جاؤں اور خوب خوب لکھوں۔

اب اندر اور باہر زور دار جنگ کا آغاز ہوا۔ ممتا اور گھر داری ٹانگوں کو اندر کی جانب گھسیٹ رہی تھی۔ اور کچھ بننے بنانے’ لکھنے لکھانے کی آندھی پٹخ پٹخ کر دروازے کے باہر پھینکتی تھی۔

پھر اس شب میرے دل پر اس شوخ کنیا کی باتوں کے ہتھیار سے وہ جھری پڑی تھی۔ جس نے مجھے عملی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔

شمالی علاقہ جات پر لکھنے کا منصوبہ ذہن نے بنایا۔ تو وہاں جانا شرط ٹھہرا۔ میرے تخیل کے گھوڑے ایسے کمزور‘ مریل اور لاغر سے ہیں کہ بیچارے مشاہدے اور تجربے کی خوراک کھائے بغیر دو قدم بھی نہیں چل سکتے۔ اپنے آپ کو تجربات میں سے گزارے بغیر میرے لئے کچھ لکھنا ایسا ہی ہے جیسے ماں دردوں کے بغیر بچہ جن دے۔

تب ایک دن میں نے اپنا پرانا اعتماد بحال کرتے ہوئے لڑ لگنے والے سے کہا۔

میں شمالی علاقوں کی سیاحت کے لئے جانا چاہتی ہوں۔ مجھے کچھ لکھنا ہے۔‘‘

میاں کے ہونٹوں اور آنکھوں میں طنزیہ ہنسی ابھری تھی۔

مشرقی پاکستان پر لکھنے کے لئے وہاں گئیں تو اسے بنگلہ دیش بنا دیا۔ اب شمالی علاقہ جات کی شامت آگئی ہے۔ خدا کے لئے رحم کھاؤ اس پر۔ گھرہستن عورت بنو۔ فضول میں گوڈون اسٹن‘ ڈریو اور منٹگمری جیسے مہم جوؤں اور کوہ پیماؤں کی روحوں کو شرمندہ کرتی پھرتی ہو‘‘۔

ڈھیٹ بن کر مدعا پھر گوش گزار کیا۔ اس بار لہجے کے ساتھ ساتھ چہرے پر بھی جھلاہٹ تھی۔

عجیب عورت سے واسطہ پڑا ہے۔ ٹک کر رہنا دوبھر ہے۔ کوئی پوچھے بھلا تم نے وہاں جا کر خشک اور بنجر پہاڑوں سے کون سے راز و نیاز کرنے ہیں‘‘۔

سچی بات ہے‘ بھینس کے آگے بین بجانے والے محاورے کا صحیح اور عملی مفہوم اس دن میری سمجھ میں آیا تھا۔

 
 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE