Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

 حسن فرخ

وہ ربِّ عظیم

جس نے  مٹی سے  آدم بنایا

جس نے  اک حکم سے  آسمان و زمیں

کائنات اور حیات

سب کو بخشا وجود

ذرّہ ذرّہ میں  ہے، روح اس کی

مگر وہ کہیں  بھی نہیں  ہے

سب ہیں  پابند اس کے 

اس کی مرضی بنا سانس پر بھی نہیں  بس کسی کا

وہی اپنا رب ہے  وہ ربِّ عظیم

جو سرچشمۂ ابتداء بھی ہے  اور انتہائے  حیات

جو لفظوں  کو معنی عطاء کرتا ہے  اور

خیالات کو عکس و رنگ

جو بصارت بھی دیتا ہے، بصیرت بھی اور سماعت بھی

جو ظاہر بھی ہے  اور باطن بھی ہے

مگر وہ تو ظاہر سے  بھی ماوراء ہے

باطن سے  بھی

یوں  ہمارے  حواس اُس کا احساس، ادراک

دیدار کرنے  کے  قابل نہیں  ہیں

ہماری زباں  اور تکلم

جس کے  اظہار کی خود میں  طاقت نہیں  پا  سکے  ہیں

وہی اپنا رب ہے، وہ روحِ عظیم

ہم اپنی زباں  اور اس کے  دیئے  سارے  لفظوں  سے  بھی

اس سے  باتیں  نہیں 

کرنے  پاتے

مگر وہ سبھی جانتا ہے، جو ہم جان سکتے  نہیں

وہ سب جانتا ہے  جو لب پر ہے  یا

کہ دل میں  ہے

گرچہ طاقت تکلم کی اس کی ہی بخشش ہے

نہ آنکھوں  سے  ہم دیکھ سکتے  ہیں  اس کو

نہ محسوس کر سکتے  ہیں

گرچہ بینائی اور لمس، اسی کے  عطاء کردہ ہیں

وہی اپنا رب ہے، وہ روحِ عظیم

کہ اب تک ہم اس کی حقیقت کے  اک عکس

ہی سے  آگاہ ہوتے  رہے

جو جھلکتا ہے  احساس کے  آئینے  میں

کہ جو نفس میں  بس گیا ہے  ہمارے

وہی اپنا رب ہے، وہ روح عظیم

بس اُن ہی کی وہ گہرائی فکر کو

جانچتا اور پرکھتا ہے

جو اسے  ماورائے  خیال و تصور سمجھتے  ہیں

جو سمجھتے  ہیں  وہ فکر کے  دائرہ کا بنے  گا اسیر

وہ پرکھتا نہیں  اُن کے  فہم و تفکر کو

وہی اپنا رب ہے  وہ روحِ عظیم

اسی سے  دعاء ہے  یہ میری

کہ رستہ دکھا دے  مجھے  جذب و ادراک کا

اس پہ چلنے  کی طاقت عطاء کر

کہ جس راستے  سے  گزر کر

جلوہ گر دیکھ لوں، اس کو ہر ایک موجود میں

وہ جو ظاہر ہے  اور باطن بھی ہے، اپنا رب ہے

وہ روح عظیم

٭٭٭

یا مصطفےٰ   صلِّ علیٰ

ہے  یہی لب پر دعا یا مصطفے ٰ  صّلِ علیٰ

دل سے  نکلی یہ صدا یا مصطفے ٰ  صّلِ علیٰ

میری رگ رگ میں  یہی نغمہ رواں  ہے  رات دن

مصطفے ٰ صّلِ علیٰ یا مصطفے ٰ  صّلِ علیٰ

آپؐ سے  ہے  التجا بخشش ہماری کیجئے

ہے  یہی یوم الجزا یا مصطفے ٰ  صّلِ علیٰ

جان و مال و رتبہ و احساس کیا ہے  ، روح بھی

آپؐ پر کر دوں  فدا یا مصطفے ٰ  صّلِ علیٰ

کر چکیں  گے  آپؐ کے  روضہ کا جب دیدار ہم

کچھ نہ ہو گا مدّعا یا مصطفے ٰ  صّلِ علیٰ

اس غلامِ مصطفے ٰ کی آرزو ہے  یہ حسنؔ !

نورِ قربت ہو عطا یا مصطفے ٰ  صّلِ علیٰ

٭٭

فنا ہی بقاء ہے

 

تباہی تباہی ، تباہی  کا ہر پھل گلستاں  گلستاں

یہی کھوج ہے  لمسِ جاں  کی، یہی کھوج ہے  خود میں  گم قطرۂ جاں

دھڑکتا ہوا دل ہے  اوجِ زمان و مکاں ، آئینہ جس میں  ہر آن لمحوں  کی سرگوشیاں

زمانے  کو معلوم تھی سر پٹکنے  کی بے  روح ّخشکی، سر   پٹکنے  کی، بے  روح خشکی

 

زمانے  کو معلوم ہے

خود اپنے  توسط سے  دل تک ، اور اس تک رسائی کی

لیکن اُسے  کوئی سُن گُن نہیں  تھی

اُسے  کوئی سن گُن نہیں  ہے

 

اُسے  کیا خبر تھی مری ابتداء ہے  نفی ، مری ابتدائے  نفی کی اُسے  کیا خبر ہے

اُسے  کیا خبر تھی، مری انتہا اور بنیاد اثبات ہے ، کیوں  کہ میرے  سواء کوئی موجود کب ہے

 

کہاں  ہے ، کہاں  ہے

مری انتہا اور بنیادِ اثبات کی ، ہاں  اُسے  کیا خبر ہے

کہ بس ،  مے ں  ہی موجود ہوں

یہاں  ہوں ، یہاں  ہے

 

یہاں  تو بس اک نورِ بے  سایہ تھا، نورِ بے  سایہ ہے 

مظہرِ بے  گماں  کا یقیں  ہے

جلال و جمالِ دعاء و اثر ہے  اگر تو ، یہی ہے ، یہی ہے

یہیں  ہے ، یہیں  ہے

 

میں  موجود کی دے  رہا ہوں شہادت، وجودِ انا سے

 شہودِ حواس و نوا، سے 

صفات اب تو معدوم ہیں ، ذات ہی ذات موجود ہے

کہ رازق ہے ، راحم ہے  ، غفّار ہے ، خالقِ دوجہاں  ، مالکِ روز محشر

کہ جس نے  کیا خلق آدم کو مٹی سے  ابلیس کو آگ سے 

صفات اب تو معدوم ہیں ، ذات ہی ذات موجود ہے

میں  موجود کی دے  رہا ہوں شہادت

کہ مے ں  تو گزر ہی چکا ہوں ، تِری یاد کی منزلوں  سے  بھی رشتوں  سے  بھی دور

 کہ یادیں  دوئی کی علامت ہیں ، ہر سانس دیتا رہا ہوں  شہادت کہ

کہ سانسوں  کی اس آمد وشد کا

مقصد یہی ہے

 

شہادت ہی پھل ہے ، وصالِ بدن ماورائے  بدن ہے 

بھلا قالبِ آدمی مے ں  ، میں ، اپنا عدد کیسے  ہو جاؤں

کسی نفس کی بارگاہِ فنا میں  ، بھلا سرخرو کیسے  ہو جاؤں

 

حقیقی شہادت سے  ذکرِ جلی تک، جو ترک وجودِ عدم تا عدم ہے 

کہ منزل مر ے  عشق کی بس قدم دو قدم ہے ، ارم ہی ارم ہے 

کہ دل میرا گنجینۂ راز ہائے  فنا تا بقاء تھا

فنا تا بقاء ہے

فنا ہی فنا ہے ، فنا ہی بقا ہے  ، بقاء ہی بقاء ہے

میں  مظہر ہوں  اس کا کہ اس جسمِ خاکی میں  اُس کے  سواء  اور کچھ بھی نہیں ہے

بس اک ارتباطِ رہِ ضبط ترسیل سے  منعکس بس وہی ہے ، وہی ہے

مری انتہا، ابتداء بس یہی ہے ، یہی ہے  شہادت ، یہی ہے  شہادت

یہی ہے  فنا بھی، یہی ہے  بقاء بھی، فنا ہی بقاء ہے ، بقاء ہی بقاء ہے

٭٭٭
 

دوسری دستک

 

چند گزرے  ہوئے  تیز رو موسموں میں 

بہت دھیرے  دھیرے  مرے  دل کے  دروازے  پر

                   موت کی سنسناہٹ

                   مجھے  پھر سے  خوش فہمیوں  کے  سنہرے  افق

سے  حقیقت کے  پردے  پہ یوں  منعکس کر چکی ہے

          ’’ سنبھل جاؤ ! لمحے  بڑے  تیز ہیں

          کسی کے  لئے  بھی اور کسی سے  بھی رُکتے  نہیں ‘‘

پہلی یہ سنسناہٹ ہوئی تھی تو میں 

محض اک شدت کیف ہستی و مستی ہی سمجھا

تیز لمحوں  کی سب آہٹوں  کو

میں  نے  احساس کے  دائروں  میں  مقید کیا

جو مری فہم کا اک سراب حسیں  تھا

اور اب دوسری سنسناہٹ نے  چونکا دیا ہے  مجھے

کہ سانسوں  کی یہ ڈور ، لمحوں  کی رفتار سے  یوں  بندھی ہے

کہ لمحات اسے  چھوڑ سکتے  ہیں

کیوں  کہ یہ لمحے  بڑے  تیز ہیں

کسی کے  لئے  بھی اور کسی سے  بھی رکتے  نہیں

اس احساس کے  ساتھ ہی میری گزری ہوئی زندگی کا

ہر اک لمحہ ہر پل ، ذہن پر نقش اپنے  دکھا نے  لگا

اپنے  ایمان کی روشنی میں  مجھے

زندگی اور اجل رنگ اور عکس اپنے  دکھانے  لگیں 

اب مجھے  بس سکوں  ہی سکوں  ہے

مرے  گزرے  ہوئے  موسموں  میں  بزرگوں ، شفیقوں ،رفیقوں 

مرے  ساتھیوں  اور چھوٹوں  ،

رفیق حیات اور بچوں  کسی سے  کسی مسئلہ پر کوئی اختلاف نقاطِ نظر

یا انا کی بناء پر کسی کا کبھی دل دکھا ہو، کوئی ٹھیس پہنچی ہو

تو دل کی گہرائیوں  سے  سبھی سے  میں  بخشش کی یہ التجا کر رہا ہوں

کیوں  کہ سانسوں  کی یہ ڈور لمحوں  کی رفتار سے  ہے  بندھی

اس کو لمحات چھوڑ سکتے  ہیں  جب بھی انہیں  حکم مل جائے

کیوں  کہ لمحے  بڑے  تیز بھی ہیں  اور پابند رب ازل اور ابد ہیں

٭٭٭
 

میں نے  دیکھا۔۔۔

 

میں  نے  ایکو  پراسس کے  دوران

اپنی آنکھیں  اٹھائیں  تو محسوس ایسے  ہوا

آئینہ میں  تو چہرہ نہیں ، کائنات تصور رواں  ہے

زندگی اپنی رعنائیاں  یوں  دکھاتی ہے

جیسے  کہ دل ہی ٹپکتا ہوا قطرۂ بے  سکوں ہے

          بیکراں  بحر ہے

میں  نے  دیکھا کہ اس آئنہ بحر کی تُند ہلچل

بہت خوبصورت ہے

جس سے  ابھرتی ہوئی لہر ایسے  فضا میں  ابھر کر

بکھرتے  ہوئے  پھر سمندر سے  ملتی ہے

سب رنگ اور عکس کے  زاویوں  کا ترنم ہوں  جیسے 

میں  نے  سوچا کہ دل کے  تعلق سے  میرے  تصور کے 

خاکے ، حقیقت کے  برعکس ہیں

میں  نے  سوچا ذرا غور سے  اس میں  دیکھوں

وہ تصویر آخر کہاں  ہے

کہیں  اس کا پر توہر اک  لہر پر منعکس ، مضطرب ہے  کہ

رنگوں  میں  مل کر ، بہت دل نشیں  ہو گئی ہے

وہاں  کچھ نہیں  تھا

میں  نے  سوچا کہ سرکارؐ کا نور کیا جگمگاتا یہیں  ہے 

اور نظریں  اٹھائیں  تو دیکھا، ہر اک شئے  وہاں  روشنی سے  منور ہے

میں  نے  سوچا کہ کہتے  ہیں  اللہ دل ہی میں  رہتے  ہیں

کیوں  نہ کوشش کروں  اور دل کی سبھی وسعتوں  میں 

انہیں  دیکھ لوں  آنکھیں  اٹھائیں  تو دیکھا

بس اک نور ہی نور جلوہ دکھانے  لگا

پھر جہانِ تصور منور ہوا

لیکن ایکو کا وہ آئینہ سورج کی مانند شعلہ فشاں  تھا

٭٭٭

گھر سے  نکلو تو۔۔۔

گھر سے  نکلو تو یہی لگتا ہے  اک شور بپا ہے  ہر سو

کوئی آواز سنائی نہیں  دیتی ، جس میں 

گھڑگھڑاہٹ ہے  جو پوں  پوں  کی صداؤں  سے 

                             رگڑ کھاتی ہے

گھنٹیاں  فون کی ، جیبوں  سے  لگاتی ہیں  چھلانگ

گاڑیاں  اور بسیں  دوڑ رہی ہیں ،

جیسے ،

موت ہے  ان کے  تعاقب میں  رواں 

سڑکیں  اس بوجھ تلے  حیراں  ہیں

کسی معصوم سے  بچے  کی طرح

میں  کھڑا سوچ رہا ہوں  کہ کہاں  جاؤں  ؟

سڑک پار کروں  تو کیسے  ؟

فون کے  ، برقی کے  کھمبے  ، ہنس کر

اس تذبذب کا اڑاتے  ہیں  مذاق

اور کہتے  ہیں  : ’’یوں  ہی چُپ چاپ رہو گے  جو کسی سوچ میں  گم

                   تو ہماری ہی طرح

                   کو وں  چمگاڈروں  ، چیلوں  کا

                   تم پر بھی بسیرا ہو گا‘‘

ہارن اک گاڑی کا گونجا ’’پوں  ، پوں  ‘‘

جیسے  کہتا ہو: ’’ زندگی دوڑ رہی ہے  کہ مشینیں  کہیں  آگے  نہ نکل جائیں

اسی دوڑ میں  ، سب شور مچاتے  ہیں  ،ہٹو،

راہ سے  فوری ہٹو، راستہ دے  دو ہم کو ‘‘

چیختے  لمحے  یہ کہتے  ہیں : ’’صدا تم بھی بہت زور سے  د ے  دو

وقت بھی مجھ سے  یہی پوچھتا ہے ، ایسے  تذبذب سے  بھلا کیا ہو گا

مجھ سے  کہتا ہے   صدا زور سے  دینا ،

’’سَاعت  اٰتیتہٌ‘‘

مری روح کی گہرائی سے  نکلی یہ صدا ، کون و مکاں  سے  بھی پرے  جا پہنچی

عرش سے  آئی ندا :  ’’کون بندہ ہے  مِرا جو ہے  دہائی دیتا‘‘

گونج تم اپنی صدا کی یوں  ہی چپ چاپ سنو

’’سَاعت  اٰتیتہٌ‘‘

گھر سے  نکلو تو یہی سوچ کے  نکلو۔۔۔

٭٭٭

 

دل اور ذہن کا رشتہ

یادیں  ہلکورے  لیتی ہوئی  ذہن میں  مرتعش ہیں 

          یادیں : بچپن سے  اب تک کی

                   جو تتلیوں  کی طرح انگلیوں  میں 

                   مسک کے  گلے  شکوے  کرتی ہیں

                   سرگوشیوں  میں  المناک اور

                   طربیہ ساعتوں  کی مدھر  نَے  کے  نغمے

                   سسکتی کسک ، چھوڑ جاتی ہیں

میں  پوروں  سے  حسرت سے  پوچھتا ہوں 

کہ کیا تم نے  میری امانت

لرزتے  ہوئے  گرم ہونٹوں  کے  تفویض کر دی

اچانک مرے  کپکپاتے  لبوں  کی مہکتی خنک تاب خوشبو

رگ د پے  میں  یوں

ٹھنڈکیں  پھینکتی ہوئی اُڑ گئی

بدن سرد اور منجمد ہو گیا

 خون جیسے  رگوں  میں  سمٹنے  لگا جم گیا

میں  نے  محسوس ایسے  کیا ، نور اک رابطہ بن گیا

میرے  دل اور مِرے   ذہن کے  درمیاں 

اور دونوں  کے  رشتے  کو جوڑے  ہوئے  ہے

میں  اسی سوچ میں  ہوں

خدا کے  مکاں  کا طواف اور پھر

روضۂ مرتضے ٰؑ کی زیارت سے  پہلے 

یہ رشتہ بھلا ٹوٹ سکتا ہے 

دل سے  آواز آئی :

                   ہاں  ٹوٹ سکتا ہے  ، گر حکم آ جائے

                   کیوں  کہ قادر وہی ہے

قادر مطلق جان و کون و مکاں  ہے  وہی

التجا اب اسی سے  ہے 

بارِ الٰہ

طواف اور زیارت کی توفیق عطاء کر

٭٭٭

پیارے  کچھ تو کہو۔۔۔

(غیاث متین سے   )

ابھی ہم نے  اپنے  خیالوں  کو دنیا کا حصہ بنایا نہ تھا

ابھی ہم نے  اک دوسرے  کی نگاہوں  میں  جھانکا نہیں  تھا

نگاہوں  سے  دل کا سفر طئے  کریں  کیسے  سوچا نہ تھا

ابھی اپنی آنکھوں  میں  رقصاں  رویوں کو جانا نہیں  تھا

لاشعوری انا کے  تحفظ کی گہرائیوں  کو شعوری سلاخوں  کے  پیچھے  ڈھکیلا نہ تھا

زندگی کی کٹھن آتشیں  وادیوں  کے  دہانے  کو پاٹا نہیں  تھا

بہت سے  کٹھن مرحلوں  پر ابھی دو بدو گفتگو بھی نہ کی تھی

بہت سے  سوالوں  کے  ہم نے  جوابات سوچے  نہیں  تھے

ہم نے  سمجھا تھا

          مہلت ہمیں  مل سکے  گی بہت

          اس کی قدرت میں  صدیاں  بھی

          ایک پل سے  بھی کم ہیں

          کیو ں کہ میں  یہ سمجھتا تھا، اپنے  حقیقی سفر کی یہی تو گھڑی ہے

          میں  نے  سوچا تھا۔۔۔

          اب آزمائش کا وقت آ گیا ہے

مگر تم تو۔۔۔

          اس موڑ پر چل دینے 

کیا ہمیں  خواب کی آہٹیں  بھی دکھائی نہ دیں  گی؟

کیا خیالوں  کو دنیا کا حصہ بنا نہ سکیں  گے ؟

خدا کے  لئے  کچھ کہو

پیارے۔۔۔

کچھ تو کہو!

٭٭٭
 

پیش یار می  رقصم

از حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ)

ترجمہ

نہیں  ہے  علم آخر کیوں  دمِ دیدار ہوں  رقصاں

مگر اس ذوق پہ ہے  ناز پیشِ یار ہوں  رقصاں

 

تو وہ قاتل تماشے  کو بہاتا ہے  لہو میرا

میں  وہ بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار ہوں  رقصاں

 

تماشا دیکھ جاناں  ، بھیڑ جاں  بازوں  کی ہے  ، جس میں 

بصد سامانِ رسوائی سر بازار ہوں  رقصاں

 

مری رندی ہے  وہ پامال ہے  صد پارسائی بھی

مرا تقوی ہے  وہ با جبہ و  دستار ہوں  رقصاں

 

میں  وہ عثمانِ بارونی کہ ہیں  منصور میرے  یار

ملامت کر لیں  سب میں  بر فراز دار ہوں  رقصاں

٭٭٭

غزلیں

کوئی معبود نہیں ، ایک خدا ہے  تو سہی

میری ہر سانس فقط اُس کی عطاء ہے  تو سہی

 

ساتوں  افلاک سے  وہ ، عرش بریں  تک پہنچی

دل سے  بے  ساختہ نکلی جو ، دعا ہے  تو سہی

 

وقت کی دھوپ میں  چہرہ ہی جھلس جائے  تو کیا؟

میری رگ رگ میں  رواں  رنگِ حنا ہے  تو سہی

 

شکر ہے  رشتہ دل تو نہیں  توڑا اُس نے 

خوش نہیں  ہے  نہ سہی مجھ سے  خفا ہے  تو سہی

 

میں  حسینؓ ابن علیؓ ہوں  ،  نہ تو ہو سکتا ہوں 

ہر نفس معرکہ کرب و بلا ہے  تو سہی

 

کاسۂ روح کھنک جائے  تو حیران ہو کیوں

اس میں  کچھ بھی نہ سہی ایک انا ہے  تو سہی

 

وقت اک سیل مصائب ہے  تو ہو، غم ہے  کسے 

ہر قدم سلسلۂ جور و جفا ہے  تو سہی

 

بخش دے  گا وہ مجھے  ، یوم حساب آنے  تو دو

میرے  نا کردہ گنا ہوں  کا صلہ ہے  تو سہی

 

گِر ہی جاؤ گے  خوشامد کے  منارے  سے  حسنؔ

جوش خوش فہمی ، غفلت کی سزا ہے  تو سہی

٭٭٭

جینے پہ تری چاہ کا الزام بہت ہے  !

دل بن کے  دھڑک جائے  ترا نام بہت ہے

دنیا کی ہوس ہے  ، نہ زر و مال کی چاہت

دل ، دل سے  ملے  بس یہی انعام بہت ہے 

کیوں  قرب کی گھڑیوں  میں  تھی بے  نام اداسی

تنہائی میں  اب کیوں  ہمیں  آرام بہت ہے 

آنسو جو بچھڑنے  کی سزا جھیل گیا تھا

آنکھوں  میں  مچلتا وہ سرِ شام بہت ہے

دل سے  کوئی آنکھوں  تک اُتر آئے  تو جانوں

جھُکتی ہوئی پلکوں  کا یہ پیغام بہت ہے

فرّخؔ ہی پہ موقوف نہیں  آج وطن میں 

جو شخص بھی اچھا ہے  وہ بدنام بہت ہے

٭٭

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE