Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

 سجدۂ شوق ........................ایک منفرد مجموعۂ نعت

 ویسے تو ہر زمانے کو حاجت ہے آپ کی
 پر ان دنوں زیادہ ضرورت ہے آپ کی

 ساہیوال میں جسے  شہرِ غزل کہا جاتا ہے،غزل کے ساتھ ساتھ نعت ایک طاقتور صنفِ سخن کے طور پر ہمیشہ سے اس شہر کی تخلیقی فضاکو مستنیر اور معطر کرتی رہی ہے۔قاضی عبدالرحمان کا نعتیہ مجموعہ ہوائے طیبہ ،ڈاکٹر اے ۔ڈی نسیم کا مجموعہ نسیمِ طیبہ،منظور احمد مہجور کی کتاب بامِ عرش،گوہر ہوشیار پوری کا نعتیہ مجموعہ آرزو حضوری کی،شوکت ہاشمی کا اولین نعتیہ نقش شاخِ نور،غلام فرید شوکت کا نعتیہ ماہیوں اور کلیوں کا مجموعہ جد کن دی گل ہوئی،سید ریاض حسین زیدی کے دو مجموعہ ہائے نعت ریاضِ مدحت اور جمالِ سیدِ لولاکﷺ ،عبدالرحمان انجم کی کتاب شہر شرفِ،علی رضا کا مرتب کردہ انتخاب درود انﷺ پر ،سلام ان ﷺپراور پروفیسر صابر شکیب کی کتاب محمدﷺ جان محبوبی میری اس بات کی تصدیق کے لیے کافی ہیں۔یہی وہ فضا ہے جس کی تابناکی میں قادرالکلام شاعر جناب نصیر احمر کا دوسرا مجموعۂ نعت سجدۂ شوق اضافہ کررہا ہے۔اس سے قبل ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ سفر پل صراط کاِ نعت گوئی میں ان کے والہانہ پن اوارتفاعِفن کا ظہاربن کراکابرینِ سخن سے پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔نعت جہاں تخلیق کار کے لیے روحانی بالیدگی اور اخروی نجات کا باعث ہے وہیںیہ معاشرے کی تطہیر کا مقدس فریضہ بھی سرانجام دیتی ہے۔توازن سے عاری اس معاشرے میں سیرتِ پاک کی خوشبو نعت کی صورت قلوب واذہان میں اتارنا سب سے بڑی سعادت او رتخلیقی ذمہ داری ہے۔جمال احسانی کی نعت کا شعر یاد آ رہا ہے
 ویسے تو ہر زمانے کو حاجت ہے آپ کی
 پر ان دنوں زیادہ ضرورت ہے آپ کی
اس بات میں کسی ذی شعور کو شک نہیں ہو سکتا کہ ہر دور کے مسائل کا حل سیرتِ طیبہ کی اتباع میں مضمر ہے۔جنابِنصیر احمر کی نعت بھی دنیا کو ایک مرکز پر لانے کے جذبے کے تحت تخلیق ہوئی ہے۔ان کی نعت کا نمایاں وصف روضۂ رسولﷺ کے پر انوار مناظر کی تصویر کشی ہے جو پڑھنے والے کے دل میں یوں اترتے ہیں کہ بے ساختہ ان فضاؤں میں پہنچنے اور اس نور کے سیلاب میں گم ہوکر غلامِ محمدﷺ ہونے کی شناخت پانے کی آرزو جاگ اٹھتی ہے۔ نور کا سیلاب ٹھاٹھیں مارتا ہے چار سو
ہر طرف سے آرہی ہے روشنی کر کے وضو
 خلد سے آ کر فرشتے بھی مزارِ پاک کو
 جھاڑتے ہیں اپنی پلکوں سے خس وخاشاک کو
 کیسے حسیں ہیں سارے مدینے کے رہگذار ر
 صحنِ چمن میں چگتے کبوتر بھی دیکھنا
نصیر احمر کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ انہیں اپنی تخلیق کے ذریعے ظلمتِ دہر کو مٹانے کے لیے انوارِ معرفت کی ضرورت ہے جبھی تو وہ کہتے ہیں اے ماہِ عرب ،اے گلِ خوبی ترے انوار
 طیبہ سے میں اب سوئے عجم لے کے چلا ہوں
 یہ کام سہل نہیں لیکن نصیر احمر پل صراط سے گزر کر سجدۂ شوق کی منزل پر پہنچے ہیں۔انہیںراستے کی ساری کٹھنائیوں کا بخوبی علم ہے۔وہ عشق و شیفتگی کی بارش میں بھیگتے ہوئے سب مراحل آسانی سے طے کر لیتے ہیں۔سیرتِ پاک کے سب نقوش ان کے لیے نعت گوئی کی تحریک بنتے ہیں اور یہی اس کلام کی دلپزیری کا سبب ہے۔
 ہوگی نہ کیسے نعت یہ احمر کی دلپذیر
 سیرت کے سب نقوش ہی جب انتخاب ہیں
 جناب نصیر احمر کی نعت گوئی کا ایک ا و ر وصف جو دامنِ دل کھینچتا ہے وہ ہے کمال کی سادگی اور سلاست۔وہ جانتے ہیں کہ لفظوں کی چکا چوند جذبے کو روند دیتی ہے۔نہایت سادہ الفاظ میں تاثیر سے مملو نعت کے یہ اشعار پڑھنے والے کو اسی کیفیت سے سرشار کر دیتے ہیں جو تخلیق کار کی روح میں رواں ہے۔معاملہ از دل خیزد بر دل ریزد والا بن جا تا ہے۔اس مجموعے کا نام سجدۂ شوق ہے ۔لفظ سجدہ مجھے ہمیشہ وقتِ عصر آخری سجدہ کرنے والی ہستی کی یاد دلا تا ہے۔افتخار عارف نے لکھا ہے وہ جو اک سجدہ علیؑ کا بچ رہا تھا وقتِ فجر
 فاطمہؑ کا لال شاید اب اسی سجدے میں ہے
 میں نے عرض کیا تھا کہ نصیر احمر نے اپنی نعت گوئی سے سیرتِ پاک کے مختلف پہلوؤں کو منظوم کرنے کا کام لیا ہے۔نعت کی اس کتاب کے آخر میں سلام شامل کرنا بھی اسی کی صورت ہے۔حسینؑ و منی و انا من الحسینؑ۔یہ سیرتِ پاک کا ایسا خوبصورت پہلو ہے جسے نظر انداز کرنا نصیر صاحب کے لیے ممکن نہ تھا۔ ابد قرار جہاں میں ہے احترامِ حسینؑ
 ہیں تاجدارِشہیداں مرے امامِ حسینؑ
 خوشبو ؤں سے معطر اور انوار و تجلیا ت کا یہ مرقع جو سجدۂشوق کے نام سے لفظوں کے پیرہن میں سامنے آیا ہے یقینا ہم سب کی عقیدت اور مؤدت میں بے پناہ اضافے کا باعث بنے گا۔

واصف سجاد
 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE