Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

ناصر ملک

چراغِ شب جلا کہیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
سحر نے ڈھونڈ لی زمیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
وہ ننھی ننھی تتلیاں ادائے گل سے روٹھ کر
شکاریوں سے جا ملیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

اے بخت کی سیاہیو ! تمھارے دل میں بھی ہؤا
ستارہ کوئی جاگزیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں

سراجِ رہ گزر کی پھر اکھڑ رہی ہے سانس بھی
کھلی ہے زُلفِ مہ جبیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
ہزار خواہشوں کے درمیاں سخن طراز کو
متاعِ دل پہ ہے یقیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
بجھے بجھے سے دیس میں لہو کے کھیل پر کوئی
اٹھی صدائے نکتہ چیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
خیالِ خوفِ قریۂِ جنوں کی آزمائشیں
غمِ جہاں پہ کھل گئیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
شباہتیں غبارِ دل سمیٹنے کے شوق میں
کسی کے ساتھ چل سکیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
لٹی لٹی شبِ وصال پوچھتی ہے چاند سے
تھکا ہے مارِ آستیں ؟ نہیں ، نہیں ، ابھی نہیں
٭٭٭
وہ ہجر ، وہ ستم کہاں
وہ تاب و ضبطِ غم کہاں
بجھی بجھی سی آنکھ میں
کمالِ جامِ جم کہاں
کہاں گئیں اُداسیاں
فشارِ چشمِ نم کہاں
کبھی پلٹ کے آئے جو
صدا میں اتنا دم کہاں
میں قتلِ جاں پہ چپ رہوں
مزاج میں وہ خم کہاں
خراش دل پہ ثبت ہے
ہوا ہے درد کم کہاں
'یہ راستوں سے پوچھنا
کہ کھو گئے تھے ہم کہاں
٭٭٭
تیور جبینِ یار کے مبہم نہیں رہے
طے ہو گیا کہ آج ہم باہم نہیں رہے
وہ رات میری عمر میں شامل نہ ہو سکی
جس رات میرے ساتھ تِرے غم نہیں رہے
سوچا کہ میں نے اَوس بھی دیکھی نہیں کبھی
شب نے کہا کہ نین کوئی نم نہیں رہے
دیکھا ہے اور شخص کو اپنے لباس میں
گویا کہ اپنے آپ کے بھی ہم نہیں رہے
٭٭٭
کافی تھا یہ کہنا ہی
دل تو مانگے تجھ سا ہی
جگنو میری مٹھی میں
پل دو پل تو رہتا ہی
لوگ پلٹ بھی آتے ہیں
تھا تو وہ بھی ایسا ہی
ہاتھ چھڑانے سے پہلے
کچھ تو اُس نے سوچا ہی
اس کا ملنا قسمت میں
ہوتا تو وہ ملتا ہی
٭٭٭
اُلجھنوں میں پڑا نہیں تھا مَیں
اُس سے جب تک لڑا نہیں تھا مَیں
خود بخود گر گئے سبھی ورنہ
اس نگر میں بڑا نہیں تھا مَیں
اُس کو پانے کی ضد بھی تھی میری
اور ضد پر اَڑا نہیں تھا مَیں
پوچھ لیتا وہ حالِ دل میرا
بے سبب تو کھڑا نہیں تھا مَیں
پانیوں کا مزاج بدلا تھا
ورنہ کچا گھڑا نہیں تھا مَیں
٭٭٭
احساسِ زیاں
بڑا عجیب شور تھا
چہار سُو ہجوم تھا
خودی پہ اختیار کیا
سانس کا شمار گم
صدائے اعتبار گم
بڑی عجیب قید تھی
چہار سُو فریب تھے
راہ گزارِ عصر میں
شوقِ انتظار گم
جہانِ اضطرار گم
بڑا عجیب دیس تھا
چہار سُو عذاب تھے
زندگی کے ہاتھ سے
ہو گیا تھا پیار گم
شباب گم ، بہار گم
بڑی عجیب عمر تھی
چہار سُو اداسیاں
رچی ہوئی تھیں اور میں
لبِ فراتِ یار گم
ردائے تار تار گم
بڑا عجیب کھیل تھا
چہار سُو اُڑان تھی
فضائے کشت و خون میں
نالۂ و غبار گم


 


ذات کا خمار گم
٭٭٭
سپر محاذِ عشق پر میں ڈال ہی نہ دوں
سبھی تمہارے خط تمہیں سنبھال ہی نہ دوں
زمیں پہ خون تھوکنے کے ساتھ ساتھ میں
فضا میں چند قہقہے اُچھال ہی نہ دوں
وہ قریۂ جنوں کی آزمائشیں بجا
میں عادتاً تمہیں بھی کل پہ ٹال ہی نہ دوں
میں بہرے منصفوں کا تو جواب دہ رہوں
تمہیں مگر میں زحمتِ سوال ہی نہ دوں
مطالبہ ہے شوخیٔ سراج کا کہ میں
کسی اداس رات کی مثال ہی نہ دوں
٭٭٭
ڈائریکٹر: آرٹ لینڈ۔ گرلز کالج روڈ۔ چوک اعظم ۔لیہ۔ پنجاب۔ پاکستان فون:  300 7894044

           300 7894044     

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE