Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 
  • سجدہ سہو        

  •  محمد حمید شاہد

    ایکا ایکی اُسے ایسے لگا جیسے کوئی تیز خنجر اُس کی کھوپڑی کی چھت میں جا دھنسا ہو۔ اس کاپورا بدن کانپ اُٹھا۔ جسم کے ایک ایک مسام سے پسینے کے قطرے لپک کر باہر آگئے۔ اُس نے سر پر دوہتڑ مار کر لَاحَول وَلا قُوة کہا۔ عین اُس لمحے اُس کے ذِہن کی سکرین پر اپنے ایک سالہ سعیدے اور اس کی ماں نوری کی تصویر اُبھری۔ نوری سعید ے کو لوری دے کر سُلا رِہی تھی اور وہ سونے کی بہ جائے اُسے دِیکھ دِیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
    اِس خیال کے آتے ہی اُس کے جسم کا تناﺅ آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا گیا۔ اُس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو دباکر نچوڑا تو اُسے یوں لگا‘ جیسے سر نچوڑنے سے عاشو منھ میں آ گئی ہو۔ منھ اِدھر اُدھر ٹیڑھا کر کے لعاب جمع کیا اور تھوک کے ساتھ عاشو کو بھی زور سے دور پھینک دیا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اِنسان سوچوں اور خیالات کے آگے بے بس کیو ں ہو جاتا ہے‘ پیچھا چھڑانا بھی چاہے تو نہیں چھڑا سکتا۔
    کہیں یہ سوچیں مجھے شکست نہ دے دیں۔
    اِس خیال کے ذہن میں آتے ہی وہ کانپ اُٹھا۔ بے شک وہ گبھرو جوان تھا لیکن سوچیں تو جسم پر نہیں ذہن پر وار کرتی تھیں ۔ اس نے س سرکو شرقاً غرباً کئی جھٹکے دِےے۔ صافہ سر پر باندھا‘ چادر کے پلو کسے‘ ایک نظر رہٹ چلاتے بیل پر ڈالی۔ بیل بڑے سکون کے ساتھ کھڑا تھا۔ اُسے بے اختیار ہنسی آگئی۔ منھ ہی منھ میں بڑبڑانے لگا۔
    ”کیسا چالاک ہے اُلو کا پٹھہ‘ مجھے غافل پا کر نہ جانے کن خیالوں میں مگن کھڑ ا ہے“
    اپنی سوچ پر پہلے تو وہ جھینپاپھر اپنے آپ پر ہنسنے لگا۔
    بھلا بیل بھی سوچتے ہیں کیا؟ بیل انسان تو نہیں؟
    لیکن وہ تو اِنسان تھا اور ابھی ابھی سوچوں سے چھٹکارا پا کر اُٹھا تھا۔
    کئی مرتبہ ایسا ہوتا‘وہ نوری ‘ سعیدے اور ماسی رضو سے بچ بچا کر سوچوں کے جوہڑ میں جا دھنستا اور دیر تک ڈبکیاں لگاتارہتا۔ پھر جس آن اُسے اندیشہ ہوتا کہ کوئی دیکھ نہ لے‘ جھٹ پٹ لَاحَول وَلا قُوة کہتا اور دھیان جوہڑ سے باہر نکل آتا۔ ایسے میں اُسے لگتا جیسے اُس کے جسم سے اس جوہڑ کے گندے پانی کی بدبو کے بھبکے اُٹھ رہے ہوں۔
    بیل اَپنی جگہ خاموش کھڑا تھا۔
    اور وہ بھی اَپنی جگہ خاموش کھڑا نتھنوں کو پھڑ پھڑا رہا تھا۔
    اُسے اَپنے اور بیل میں کوئی فرق محسوس نہ ہوا۔
    ”وہ مجھے غافل پا کر اپنے خیالات میں مگن‘ نہیں نہیں‘ خاموش کھڑا ہے۔ اور میں بھی کسی کو غافل پا کر سوچوں میں غرق ہوں“
    اس نے ایک موٹی سی گالی اپنے آپ کو اور ایک اِسی وزن کی گالی بیل کو دی۔
    بیل تو جیسے اِسی گالی کا منتظر تھا‘ فوراً چل پڑا۔ ٹینڈیں پانی بھر بھر کر اُوپر لانے لگیں تو وہ کھالے کے ساتھ چلتا ہوا گنگنانے لگا:
    نیچاں دِی اَشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
    کِکر تھ اَنگور چڑھایا تے ہر گُچھا ز خمایا
    ہو....و.... نیچاں دِی اَشنائی کولوں....
    آخری کھیت پر پہنچ کر پانی کا رُخ بائیں کھیت کی طرف موڑنے کے لےے اُس نے پانی کا ناکا کھول دِیا۔ پانی دائیں بائیں دونوں کھیتوں میں جا رہا تھا۔ اُس نے دائیں کھیت کے ناکے کو بند کر دیا کہ وہ سیراب ہو چکا تھا۔ اِس کام سے فارغ ہو کر اُس نے کمر پر ہاتھ رکھا اور سیدھا کھڑا ہو کر گاﺅں کی طرف دِیکھنے لگا۔ اُس کے اَندازے کے مطابق نوری کو کھانا لے کر اَب تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔
    اور اس کا خیال درست نکلا۔
    نوری واقعی ایک ہاتھ سے سعیدے کو اور دوسرے میں کھانا تھامے چلی آہی تھی۔ وہ واپس رہٹ کے پاس آیا اور اُسی بوہڑ کے نیچے آبیٹھا جہاں کچھ دیر قبل عاشو کے خیال سے جنگ کرتا رہا تھا۔
    یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ عاشو بہت حسین تھی۔ اُس کا قد سرو کی مانند تھا نہ گردن صراحی کی طرح۔ اُس کے ہونٹ گلاب کی پنکھڑی جیسے تھے نہ رنگت ہی سرخ و سپید۔ یہ سب کچھ تو بس عام لڑکیوں جیسا تھا لیکن اُس کی آواز میں بلا کی کشش تھی۔ وہ بولتی تو راہ چلتوں کے قدم تھم تھم جاتے۔ سرسوں کے پیلے پیلے پھول‘ کہ جن سے عاشو نے اپنے چہرے کا رنگ چرایا تھا‘ جھوم جھوم اُٹھتے۔ گاﺅں کی تمام اَلہڑ مٹیاروں کی طرح وہ بھی کھیتوں پر کام کو جاتی۔ گھر کے ڈھور ڈنگر سنبھالتی‘ بالکل ایسے ہی جیسے خود عبدل کی بیوی نوری ےہ سارے کام کرتی تھی۔
    لیکن عبدل پر عاشو کا خیال بھوت بن کر سوار ہو گیا تھا۔
    وجہ عبدل خود بھی نہ جانتا تھا۔
    جونہی اُس کا ذہن دیگر تفکرات سے خالی ہوتا‘ عاشو آکر قبضہ جما لیتی۔ کئی بار تو ےوں ہوتا کہ وہ رات کو اچھا بھلا سونے لگتا مگر دیر تک دشتِ خیالات میں بھٹکتا رہتا۔ پھر جب رات کے پچھلے پہر سعیدا اَپنے پوتڑے گندے کر کے رونے لگتا تو وہ چونک اٹھتا اور لَاحَول وَلا قُوة کَہ دِیتا۔ نوری بے چاری سمجھتی‘ اس ننھے شیطان کے رونے پر عبدل نے غصے میں آکر لَاحَول وَلا قُوة کہا ہے۔ چناں چہ وہ جلدی جلدی اُس کے پوتڑے بدلتی۔ اُسے تھپکتے اور دودھ پلاتے سلانا شروع کر دیتی۔ اُس کے ساتھ ہی عبدل کو ےوں لگتا‘ نوری نے سعیدے کو نہیں خود اُسے تھپکیاں دِے کر سُلادِیا تھا۔
    نوری قریب پہنچی تو اُسے ڈر لگنے لگا؛ کہیں سوچوں کے گندے جوہڑ کی بو نوری بھی نہ سونگھ لے۔ اُسے دُکھ ہو رہا تھا کہ وہ عاشو کے بارے میں کیوں سوچتا رہتاتھا؟ اس جرم کے احساس کی شدّت کو کم کرنے کے لےے وہ نوری کو دِیکھ کر مسکرا دیا۔ اور جب اُس کی نظر سعیدے پر پڑی تو اس کا چہرہ گلِ نو شگفتہ کی طرح کِھل اُٹھا۔ لپک کر آگے جھکا‘ نوری کی گود سے سعیدے کو اُچکا اور سینے سے لگا لیا۔
    بے تحاشا پیار کی پھوار تھی جو سعیدے پر مسلسل برس رہی تھی۔
    نوری نے ےہ دِل رُبا منظر دِیکھا تو نہال ہو گئی۔ کھانا بوہڑ کی چھاﺅں تلے رَکھا اور بانہیں پھیلا کر کہنے لگی۔
    ”سعید ا مجھے دو اور تم کھانا کھاﺅ کہ بھوک ستا رہی ہو گی“
    عبدل نے نوری پر ایک اُچٹتی نگہ ڈالی‘ سعیدے کی پیشانی پر پیار سے ایک اور بوسہ دیا اور اُسے نوری کی پھیلی بانہوں میں ڈال دیا۔ جب وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیاتو نوری بھی اُس کے سامنے بیٹھ گئی۔ سعیدا اُس کی گود میں لیٹا مسکرا کر باپ کو دِیکھ رہا تھا اور توتلی زُبان میں کچھ کہے جاتا تھا۔ اُس نے روٹی کے کپڑے کی گرہ کھولی۔ باجرے کی روٹی اُس پر سرسوں کا ساگ اور مکھن کی سوندھی خُوِشبو۔ اُس کی بھوک چمک اُٹھی۔ لسی کا گلاس بھر کر قریب رکھا اور کھانے میں مگن ہو گیا۔ نوری اُ س سے بھولی بھالی باتیں کرتی رہی۔ وہ سنتا رہا۔ اور جانے کب نوری خاموش ہو کر بچے کو پانی پلانے چوبچے کے پاس لے گئی تھی کہ عاشو کہیں سے آکر عبدل کے ذہن پر براجمان ہو گئی۔ دوسرے ہی لمحے سعیدے کی کلکاریوں اور ”مم مم“ نے خیال کے اس کھلونے کو توڑ کر دور پھینک دِیا اور وہ مطمئن ہو کر کھانا کھانے میں لگ گیا۔ کھانا کھا چکا تو نوری نے برتن سمیٹے اور سعیدے کو اُٹھا کر واپس چل دِی۔ عبدل وہی صافہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ ابھی نوری نظروں سے اوجھل نہ ہوئی تھی کہ وہ دھڑام سوچوں کے گندے جوہڑ میں جا گرا۔
    عاشو سے اُس کی ملاقات دو سال قبل فضلو کی شادی پر ہوئی تھی۔ بارات دلہن کو لینے دوسرے گاﺅں گئی تھی۔ ابھی وہ دلہن کے گاﺅں کے قریب پہنچے ہی تھے کہ شمال سے بادل اُٹھے اور پورے آسمان پر بکھر گئے۔ بجلی کڑکی اور اس کے ساتھ ہی رِم جھم بارش برسنے لگی۔ گاﺅں پہنچنے تک بارش کچھ اور تیز ہو گئی تھی۔ بارات میں موجود سیانوں کا یہی فیصلہ تھا:
    دلہن لے کر فوراً واپس چل پڑنا چاہئے کہ کہیں راہ میں پڑنے والے برساتی نالے میں تغیانی نہ آجائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پانی اُترنے تک ےہیں رکنا پڑے گا۔
    چناں چہ دلہن لے کر برات بارش ہی میں واپس چل پڑی۔
    وہ دوسرے باراتیوں کے ساتھ نالے میں اُترا ہی تھا کہ اُس کے پہلو سے عاشو لڑکھڑا کر اُس کے ساتھ ٹکرا گئی۔ عبدل کے پاﺅں بھی اُکھڑ گئے اور وہ بھی عاشو کے ساتھ ہی پانی میں گر پڑا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ابھی نالے کا آغاز تھا‘ پانی گھٹنوں سے اُوپر نہ تھا۔ وہ خود سنبھلا‘ عاشو کو سنبھالا دیا۔ عاشو نے ہنس کر اُسے دیکھا۔ شکریہ ادا کیا اور اپنا ہاتھ اُس کی جانب بڑھاتے ہوے کہا:
    ”ذرا پار تک مجھے تھامے چلو“
    عاشو کے ذِہن پر اُس لمحے کسی اور خیال کی پرچھائیں تک نہ تھی۔ وہ تو بس نالے کے پار تک جانا چاہتی تھی مگر عبدل کے خیالات کا منھ زور گھوڑا لگام تڑا کر سرپٹ بھاگے جا رہا تھا۔ اُ س کے بعد جب بھی وہ اکیلا ہوتا‘ لڑکھڑا کر ندی میں جا پڑتا‘ پھر عاشو کو سنبھالا دیتے ندی کے پار تک آتا۔ ذہن کے بحرالکاہل میں کتنی ہی موجیں اُٹھتی تھیں اور وہ بے حال ہو جاتاتھا۔
    لمحہ لمحہ کر کے دوسال بیت گئے مگر عاشو کے ہاتھوں کا لمس تھا کہ وہ بھول نہ پایا تھا۔ تاہم جیسے ہی اُسے سعیدے کی ماں کا خیال آتا وہ اپنے آپ کو کوسنے لگتا اور آسمان کی طرف دیکھ کر زورزور سے کہنے لگتا:
    ”خدایا! تیرا شکر ہے کہ تو نے میری اور میری ماں کی دُعائیں سن لیں اور مجھے سعیدا عطا کیا“
    ٍ
    عبدل کی ماں رضو‘ گاﺅں بھر کے لےے ماسی تھی۔ سب کے مسئلوں کا حل ماسی رضو کے پاس تھا‘ لیکن ماسی رضو خود جس کرب میں مبتلا تھی اُس کا حل کسی کے پاس نہ تھا۔ پیش اِمام کی بیوی صغراں اس کی رازداں تھی۔ جب بھی اُس سے مشورہ کیا‘ اُس نے ےہی کہا:
    ”عبدل کو ایک اور شادی کرادو“
    ماسی رضو سے اپنے بیٹے کا دُکھ دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ شادی سے پہلے اور دو سال بعد تک تو وہ گاﺅں بھر کی محفلوں کی جان بنا رہا تھا۔ کُشتی ہوتی ےا بیلوں کا میلہ‘ کتوں کی دوڑ ہوتی ےا مرغوں اور بٹیروں کی لڑائی ہر موقع پر وہ آگے ہی آگے ہوتا؛ مگر اب الگ تھلگ‘ نہ کسی سے تعلق‘ نہ کسی واسطہ۔ ےوں لگتا تھا‘ وہ اندر ہی اندر سے ٹوٹتا چلا جاتا تھا۔
    اِدھر عبدل کی بیوی گاہراں تھی کہ خزاں کے ٹنڈ منڈ شجر کی طرح۔
    چناں چہ اُ س نے صغراں کے مشورے پر عمل کرتے ہوے فیصلہ دے دیا:
    ”عبدل کے لےے دوسری شادی بہت ضروری ہے“
    ماسی رضو کے لئے یہ کام کون سا مشکل تھا۔ ادھر عبدل سے کہا: گاہراں کو فیصلہ سنادو‘ اُدھر نازو کو دُلہن بنا کر گھر لے آئی۔ پھر کئی سال اِنتظار میں بیت گئے۔ عبدل کے سر میں چاندی کی طرح سفید بال چمکنے لگے۔ ماسی رضو نڈھال ہوگئی۔ اتنی سکت نہ رہی کہ خود چل کر پانی پی سکے۔ برتن اٹھانا چاہتی تو وہ کپکپا کر گر جاتا ۔ پوتے کے اِنتظار کے دُکھ نے اُس کے لبوں پر چُپ کا جالا بُن رکھا تھا۔ صغراں آتی تو اپنے غم کی پٹاری اُ س کے سامنے کھولتی۔ لیکن صغراں کا تو بس ایک مشورہ تھا:
    ”ماسی رضو اللہ کا دیا سب کچھ ہے تمہارے پاس۔ اللہ بخشے تمہارا گھر والا تمہیں بہت کچھ دے کر اس دنیا سے گیا ہے۔ روپے پیسے اور جائیداد کی کمی نہیں۔ عبدل کے لےے عورتوں کا کیا کال ہے۔ دوسے اولاد نہیں ہوئی تو تیسری کرادو۔“
    اور عبدل سے ماسی رضو نے کَہ دیا:
    ”بیٹا ایک شادی اور کر لو“
    عبدل نہ مانا۔ ماےوسی نے اُسے چاروں شانے چِت گرادِیا تھا۔ ماسی رضو منتوں پر اُتر آئی:
    ”بیٹا ایک شادی اور.... میرے لئے اور صرف میرے لئے.... میں تمہیں بے اولاد دیکھ کر مرنا نہیں چاہتی“
    ماں کی التجا اور آنسو بھری آنکھیں عبدل سے دیکھی نہ گئیں۔ یوں نوری دلہن بن کر گھر آگئی تھی۔ شاید قدرت بھی اسی لمحے کی منتظر تھی۔ عبدل اور ماسی رضو کو مزید اِنتظار نہ کرنا پڑا۔ جس روز سعیدا پیدا ہوا‘ اس روز تو عبدل کے پاﺅں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ ماسی رضو کو کوئی دیکھتا تو یوں محسوس کرتا‘ جیسے اُ س کے پیکر میں کوئی جواں روح داخل ہو گئی تھی۔ کئی روز تک جشن کی سی کیفیت رہی اور پھر خُوشی کے ےہ لمحات دیکھتے دیکھتے ماسی رضو اللہ کو پیاری ہو گئی۔
    وہ دولت کہ جس کے لےے عبدل نے طویل اِنتظار کا کرب اُٹھایا تھا‘ سعیدے کے روپ میں عبدل کے سامنے تھی‘ نہ جانے ےہ کمبخت عاشو کہاں سے ٹپک پڑی تھی۔ اس نے اُس کا سکون درہم برہم کر دیا تھا۔ عبدل کب کا بڑھاپے کی دہلیز پھلانگ چکا تھا۔ بالوں میں سفیدی ہی سفیدی تھی۔ جلد جو کبھی تنی ہوئی ہوتی تھی‘ اب ڈھلک گئی تھی۔ لیکن اِس عمر میں بھی اُسے اَٹھارہ سالہ عاشو کا خیال نڈھال کیے دِے رہا تھا۔
    پہلے پہل تو عبدل لَاحَول وَلا قُوة کَہ کر عاشو سے چھٹکارا پاتا رہا۔ رفتہ رفتہ لَاحَول وَلا قُوة کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اور پھر وہ لمحہ بھی آیا جب سعیدا‘ نوری اور لَاحَول وَلا قُوة تینوں بے بس ہو گئے اور اُس نے عاشو کو اَپنانے کا فیصلہ کر لیا۔
    کرمو غریب مزراع تھا۔ عبدل جیسے صاحبِ حیثیت زمیندار نے رشتہ طلب کیا تو بھلا وہ کیسے انکار کر سکتا تھا۔
    اور یوں عاشو دُلہن بن کر عبدل کے گھر آگئی تھی۔

    نوری روئی‘ چلائی‘ سعیدے کے واسطے دیے۔ عبدل کے ارادوں نے بدلناتھا‘نہ بدلے۔ اُس کے سامنے اجازت نامے کا کاغذ رکھا اور کَہ دیا:
    ”شادی کی اجازت دے دو یا پھر مجھ سے فیصلہ سن لو“
    فیصلے کی بات سن کر اس کی روح تک لرز گئی۔ چپکے سے انگوٹھا اٹھایا اور کاغذ پر ثبت کر دیا۔
    گویا اب عبدل کو قانونی تحفظ اور عاشو کی جانب سے باقاعدہ اجازت نامہ مل چکا تھا۔
    اسی اجازت نامے کے سہارے عاشو اُس گھر میں داخل ہو گئی تھی جو کبھی نوری کا تھا۔ اس کے سعیدے کا تھا۔ وہ لہو کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔
    عاشو گھر میں اِٹھلاتی پھرتی تھی.... یہاں وہاں۔
    جب کہ سعیدا اور نوری گھر میں ہوتے ہوے یوں نظر انداز کر دِےے گئے تھے‘ جیسے پھٹے پرانے لیر لیر کپڑے۔ وہ بھری دوپہر کے اس سائے کی طرح تھی جو کونوں کھدروں میں پناہ تلاش کرتا ہے۔ خوف اس کی نس نس میں بھرا ہوا تھا۔بے یقینی اس کی آنکھوں میں تیر رہی تھی اور مایوسی اس کے دِل میں پوری طرح اُتر گئی تھی۔
    ہاں جب جب وہ سعیدے کو دیکھتی تھی تو عبدل کے حوالے سے ایک آس بندھتی تھی۔
    مگر نوری کا بھائی محمد حسین بیچ میں یوں کودا‘ کہ رہی سہی اُمید کا کچا دھاگہ بھی ٹوٹ گیا۔
    وہ کراچی میں ملازمت کرتا تھا‘ بہن پر بیتی سنی تو مشتعل ہو گیا۔ سیدھا گاﺅں پہنچا دوڑا دوڑا بہن کے گھر گیا اور نوری کو ساتھ لے کر چل دیا۔ نوری جاتے جاتے کہتی رہی:
    ”میں اِس گھر سے نہیں جاﺅں گی۔ کیا ہوا جو عبدل نے نئی شادی کر لی ہے۔ میں اس گھر کی دِہلیز سے مر کر ہی نکلوں گی“
    زبان کچھ اور کَہ رہی تھی جب کہ اس کے اندر اُٹھتی اِنتقام کی لہریں نفرت کے ایسے بیچ بوچکی تھیں کہ اُس کے قدموں میں بھائی کا ساتھ دینے کا حوصلہ بھرگیاتھا۔
    محمد حسین کا لہو کھول رہا تھا۔ وہ نوری کو تقریباً گھسیٹتا گھر لے گیا۔ ادھر عاشو تو جیسے اسی لمحے کی منتظر تھی۔ اس کا جادو عبدل کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ لہٰذا نوری کو طلاق کا فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔
    نوری نے ےہ سنا تو چکراکر رہ گئی۔ خود کو کوسنے دئےے۔ بھائی کا گریبان پکڑ لیااور اس پر برس پڑی:
    ”تم نے مجھے اُس گھر سے لا کر بہت بُرا کیا۔ اب میں کس کے سہارے جیوں گی۔ پہاڑ سی زِندگی کیسے کٹے گی؟“
    نوری نے سعیدے کو دیکھا تو کلیجہ منھ کو آگیا۔ دھاڑیں مار کر روتے ہوے اسے سینے سے لگا لیا۔ جب خوب رو چکی تو کہنے لگی:
    ”اس معصوم نے کون سا گناہ کیا ہے کہ اسے بھی میرے ساتھ سزا مل رہی ہے۔ اس کا باپ زندہ ہے لیکن یہ یتیم ہو گیا ہے“
    جب نوری‘ محمد حسین کا گریبان پکڑے اسے جھنجھوڑ رہی تھی تو محمد حسین پتھر کے مجسمے کی طرح ڈول رہا تھا۔ دُکھ کی ایک گہری جھیل میں اس کا بدن ڈوبے جا رہا تھا۔ اُس کے دِل میں لمحہ بھر کو ایک چنگاری چمکی اور نہایت اَہم فیصلے کا شعلہ بھڑگا گئی۔ بہن کو دِلاسادیا۔ سعیدے کو پیار سے تھاما اور کہنے لگا:
    ”بہن فکر نہ کرو‘ سعیدا ےتیموں کی طرح نہیں‘ شہزادوں کی طرح پلے گا۔ میں پوری زِندگی تمہیں کوئی غم نہ آنے دوں گا۔“
    جب وہ یہ کَہ رہا تھا تو اس کا گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ جو غم اور روگ نوری کو لگ چکا تھا‘ اس کا علاج ممکن ہی نہ تھا۔ کتنے ہی غم ہوتے ہیں جو انسان ہنسی خُوشی سہہ جاتا ہے لیکن کچھ دُکھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زِندگی کو قبر کی مٹی اور کفن کی طرح چاٹتے رہتے ہیں۔
    محمد حسین نے اپناآبائی مکان اور وہ تھوڑی سی زمین‘ جو اُس نے خُون پسینے کی کمائی سے خریدی تھی‘ بیچ ڈالی۔ بہن اور اس کے بیٹے کو ساتھ لیا اور کراچی پہنچ گیا۔ اس نے سوچا ماحول بدلے گا تو زخموں پر مرہم لگ جائے گا۔
    ”انسان بڑا ہی نا شکرا ہے“
    پیش امام کی بیوی صغراں عبدل کا دُکھ سن کر کہنے لگی:
    ”تم اولاد کو ترستے تھے‘ جب اولاد ملی تو اُس سے بے نیاز ہو گئے۔ آہ!.... خدا کا شکر ہے کہ آج ماسی رضو زندہ نہیں۔ وہ زندہ ہوتی تو ےہ دُکھ جَر نہ سکتی۔ تم نے ڈاکٹروں ‘ حکیموں اور سنیاسیوں کو آزما دیکھا۔ اب عاشو کی گود کیا ہری ہو گی۔ تم آج بھی اولاد کو ترس رہے ہو۔ اب تو میں تمہیں ےہ مشورہ بھی نہیں دے سکتی کہ ایک اور شادی کر لو۔ خبر نہیں نوری کہاں اور کس حال میں ہو گی؟ محمد حسین تو اُسے ساتھ لے کر ےوں گم ہوا ہے کہ کہیں کوئی نشان نہیں ملتا۔ کراچی میں اُس نے اَپنا ٹھکانہ تک بدل لیا تھا کہ کہیں تم پچھتا کر اُدھر نہ جا نکلو اور اپنا بیٹا نوری سے چھین کر اس کے زخم ہرے کرو۔اللہ کرے سعیدا ٹھیک ہو۔“
    صغراں کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی برس رہی تھی۔ اُسے ماسی رضو کے ساتھ اُنس تھا اور عبدل ماسی رضو کی نشانی تھی۔ مگر ماسی رضو کی اس نشانی کو دیکھتی تو کلیجہ کٹ کٹ جاتا۔ صغراں سے مزید وہاں بیٹھا نہ گیا۔ چادر کے پلو سے آنسو پونچھے‘ لاٹھی اُٹھائی اور وہاں سے اُٹھ گئی۔
    عبدل کے سینے سے درد کی ایک لہر اُٹھی اور پورے وجود کو چیرتی چلی گئی۔
    عبدل کا دُکھ عاشو کے لئے جان لیوا تھا۔ لیکن وہ کیا کر سکتی تھی؟ بس عبدل کو دیکھتی اور دیکھتی ہی رہ جاتی۔ یوں جیسے پیاسی زمین بانجھ بادلوں کو حسرت سے تکتی رہ جاتی ہے۔ پورے بارہ سالوں کا ایک ایک پل عبدل نے دُکھ کے پل صراط پر چل کر گزارا تھا۔
    گاﺅں کے ایک ایک فرد سے محمد حسین کا پتہ پوچھ ڈالا۔
    خود کئی مرتبہ کراچی سے ہو آیا۔
    لیکن نوری کا سراغ ملا نہ اس کے سعیدے کا۔

    فجر کی نماز پڑھ کر عبدل کھانستا کھانستا گھر کی جانب پاﺅں گھسیٹے جا رہا تھا کہ پٹواری لال دین نے پیچھے سے آواز دی۔ عبدل رُک گیا۔ لال دِین کہنے لگا:
    ”عبدل میں کراچی گیا تھا۔ اپنے بیٹے چراغ دین سے ملنے۔ اِس مرتبہ محمد حسین سے بھی ملاقات ہو گئی۔“
    عبدل کا دِل اُچھلا اور حلق میں آپھنسا۔ جلدی سے پوچھا:
    ”کہاں رہتے ہیں وہ؟ کس حال میں ہیں؟ سعیدا کیسا ہے؟ نوری کا کیا حال ہے؟“
    ایک ہی سانس میں اتنے سوال۔ ےہی وہ سارے سوال تھے‘ جو بارہ سالوں سے اس کے سینے کو اندر سے ڈس رہے تھے۔ لال دین ہنس دیا۔ دوسرے ہی لمحے اس کے چہرے سے ہنسی غائب تھی اور دُکھ سے وہ ہاتھ ملتے ہوے کَہ رہا تھا:
    ”عبدل بڑے بَد نصیب ہو تم۔ تم نے اللہ کی نعمتوں کو ٹھکرا کر اچھا نہیں کیا۔ محمد حسین مجھے صدر میں ملا تھا۔ سودا سلف خریدنے آیا تھا۔ سعیدا اُس کے ساتھ تھا۔ تمہارے گبھرو پتر کو دیکھا۔ خدا کی قسم ےقین نہیں آتا تھا کہ ےہ وہی سعیدا ہے۔ تین سال کا بچہ تھا‘ جب ماں کے ساتھ گیاتھا اور اب ایسا خوبصورت جوان بنا ہے کہ جوانی پر رشک آتا ہے۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ گھر چلنے کو بڑا اصرار کیا تھا لیکن میں نہ جا سکا کہ میرے ساتھ اور لوگ....“
    عبدل نے لال دین کی بات درمیان میں کاٹ ڈالی۔ ان کا پتہ پوچھا اور اسی روز کراچی چل پڑا۔
    لانڈھی پہنچا‘ مطلوبہ مکان ڈھونڈا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔
    اس کے ساتھ ہی اس کا اپنا دِل بھی زور زور سے دَھک دَھک کرنے لگا۔
    بالکل ایسے ہی جیسے اس کے اندر دِل پر کوئی زور زور سے دستک دے رہا ہو۔
    چند لمحوں کے بعد ایک پندرہ سالہ خوبصورت لڑکا اُس کے سامنے کھڑا‘ اُسے سوالیہ نظروں سے تک رہا تھا۔ عبدل کو سمجھنے میں دِیر نہ لگی کہ وہ اس کا بیٹا سعیداتھا۔ برسوں کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا‘ دےوانہ وار آگے بڑھا اور بے اختیار پکار اُٹھا:
    ”میرے بیٹے.... میرے سعیدے“
    وہ اُسے بانہوں میں جکڑے‘ سینے سے لگائے رو رہا تھا کہ اندر سے نسوانی آواز آئی۔
    ”سعیدے بیٹے.... کون ہے باہر؟“
    عبدل کو یوں لگا‘ وہ آواز نہ تھی ‘ بجلی کا کوندا تھا جو اس کے بدن پر دوڑ گیا تھا۔ آواز نوری کی تھی۔ بالکل ویسی ہی۔ بس اس میں کپکپاہٹ بھر گئی تھی۔ بارہ لمبے سالوں کی گرد بھی اس کے ذہن میں محفوظ نوری کی آواز کی پہچان نہ دھندلا سکی تھی۔ سعیدا عبدل کے سامنے حیرت کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ نوری سعیدے کا جواب نہ پا کر خود دروازے تک آئی۔ عبدل نے نوری کو دیکھا تو یوں لرزنے لگا جیسے بارش کی زد میں آیا ہوا وہ خشک پتا لرزتا ہے جو خزاں زدہ پیڑ کی کسی لرزیدہ شاخ پر کسی بھی پل ٹوٹنے والا ہوتا ہے۔
    نوری کے ہاتھوں میں سہارے کے لئے لاٹھی تھی۔ اس لاٹھی سے وہ راستہ ٹٹول ٹٹول کر قدم آگے بڑھا رہی تھی۔ ویران آنکھیں اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ اُن سے نور کب کا رُخصت ہو چکا تھا۔ نوری نے ایک مرتبہ سعیدے سے پوچھا:
    ”بیٹا بتاﺅ نا! کون ہے تمہارے ساتھ؟“
    اِس سے پہلے کہ سعیدا کچھ کہتا۔ عبدل نے ایک فیصلہ کیا۔ یوں ہی واپس پلٹ جانے کا فیصلہ۔
    وہ اس فیصلے کی کٹار سے اپنے وجود جو چیر کر جرم کے اِحساس کی شدّت کو کم کرنا چاہتا تھا۔
    اُس نے اپنے بوجھل قدم اٹھائے‘ واپس پلٹا اور کہنے لگا‘ رک رک کر .... یوں کہ جیسے لفظ زبردستی حلق سے باہر دھکیل رہا ہو:
    ”جی مجھے غلط فہمی ہوئی.... غلط جگہ پر آگیا ہوں.... دراصل میں کسی اور صاحب سے ملنا چاہتا تھا....“
    نوری نے یہ آواز سنی تو عبدل کی طرح اُسے بھی پہنچاننے میں دیر نہ لگی تھی۔ کیا ہوا آنکھوں سے نور رخصت ہو گیا تھا مگر دِل کے نہاں خانے میں‘ دماغ کے ایک ایک گوشے میں عبدل کی آواز اور تصویر دونوں اسی طرح سجی ہوئی تھیں‘ جیسے آج سے بارہ سال قبل تھیں۔ فوراًپکار اُٹھی:
    ”بیٹا! تم نے پہنچانا نہیں ‘یہ تمہارے ابا ہیں۔ ہاں ہاں بیٹا تمہارے ابا“
    اس کے لہجے میں یقین تھا۔
    عبدل ایک دم نوری کی جانب گھوما۔
    بس ایک ساعت کے لئے اس کا چہرہ اور اس پر برستے یقین کے رنگوں کو دیکھ سکا۔ اور پھر اس کی جانب کٹے ہوے شجر کی طرح یوں گرا جیسے سجدہ سہو کر رہا ہو۔

     

    Blue bar

    CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE