Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 


 مصنف  امجد مرزا امجدلندن

اظہار خیال فرخندہ رضوی

مرزا امجد کی کتاب توبہ ؔ ادبی علم میں خوبصورت اضافہ
 ایک بار پھر میرا قلم سوچ میں اُس وقت پڑ گیاجب امجد مرزا امجدصاحب کے افسانوں کا مجموعہ٬٬ توبہ،، میرے سامنے تھا ایک قلم کار کے لیے وہ لمحہ بہت مشکل ہوتا ہے جب اُس مصنف کوجانتے بھی ہوں اور اس کی تحریر کے شیدائی بھی۔تب بے ساختہ دل کی گہرائیوں سے سراپا التجا بن جاتی ہوں ۔کیونکہ میرے لیے پہلی سطر اور اختتامیہ جملہ لکھنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔مجھے معلوم ہے میں ہر بار اپنے قلم میں چند لفظ سمیٹتی ہوں ۔جب جب امجد بھائی کی کوئی کتاب چاہیے وہ افسانے،
انشائیے ،یا پھر شاعری پر ہومیرے ہاتھ میں آتی ہے۔میرے قلم کی طاقت شاید اتنی وسیع نہیں میرے لفظوں کی پکار میں اتنی شدت نہیں جتنا حق اس مصف کا ہے۔۔توبہ ؔ ایک افسانوی مجموعہ ہے ۔سرِورق پر بندھے ہاتھوں میں چھپائے چہرے،
 ہاتھو ں میں تسبی تھامے،عاجزی میں جھکا یہ کتاب کا مصنف ہی تو ہے۔جس نے توبہ ؔ کے پردے میں کہانیوں کے کرداروں کے دُکھ پر آنسو بہائے ہیں ۔ہمیشہ کہتی ہوںادب کوآسان ہونا چاہے تاکہ زیادہ لوگوں تک اس کی رسائی ہو سکے۔مرزا امجد صاحب کی اس کتاب کی فہرست میں بہت قابل قلمکاروں کے نام درج ہیں ۔جنہوں نے اپنے قیمتی وقت سے چند لفظ ان کی نذر کیئے مگر لفظ بھی ایسے کہ مصنف کی تمام صفات کو چار چاندلگا دیئے۔
 صفیہ صدیقی صاحبہ نے اظہار خیال کے شروع میں ہی کہہ دیا کہ سماجی اور ادبی مصروفیت کا حال جان کر مجھ جیسا انسان
 حیران رہ جاتا ہے۔ایک صفیہ صدیقی صاحبہ ہی نہیں ادب سے تعلق رکھنے والے ہر آدمی کی سوچ ہی حیران کُن ہے۔
 ایک آدمی قلم کے بہت دلچسپ حصوں میں ہر وقت بٹا رہتا ہے۔اسی طرح بانو ارشد صاحبہ کہتی ہیں ۔مصنف امجد مرزایہ سفر بغیر کسی تھکن کے رہ نورِد شوق کی طرح کاغذ اور قلم کے ہمراہ رواں دواں ہے۔ان مضمون وافسانہ نگاروں کے علاوہ ارشاد عرشی صاحب ،سرور غزالی ،عظمیٰ صدیقی صاحبہ نے بھی خوبصورت لفظوںمیں عقیدت کے پھول پروہئے ہیں۔
 آج کے دور میں اردو لکھنے والوں کی تعداد تو پھر بھی کہیں نظر آتی ہے۔مگر کتابیں پڑھنے کا روہجان کم سے کم تر ہوتا جاتا ہے۔ایسی خوبصورت تخلیقی کتابیں لوگوں کی ذہنی سطح کو ادب تک لانے کی ایک اچھی کوشش ہے۔ امجد مرزا صاحب کا ادب سے اتنا گہرا تعلق و مطالعہ ہے کہ لفظ انہیں خود ڈھونڈتے پھرتے ہیں ۔آدمی کتنا لاعلم بھی ہو ان کی ادب سے محبت دیکھ کر خود بھی لفظوں کے ہجے جوڑنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ان کے افسانے اور کہانیاں تو ہاتھ پکڑ کر پڑھنے والے کو اُسی کے سامنے لا کھڑا کرتی ہیں ،زندگی کے ہر دریچے کو کھولتے جاتی ہیں جن سے کبھی ہماری اقفیت بھی نہیں ہوتی۔روزمرہ میں رونما ہونے والے واقعات لفظوں میں ڈھلتے ڈھلتے جب ایک افسانے کی شکل اختیار کرنے لگتے ہیں ۔تو امجد مرزا کا قلم خوبصورتی سے ان واقعات کو اپنے قلم میں سمیٹ لیتا ہے اور پڑھنے والا
 حیران کن نظروں سے خود کو ہی اس کہانی کا کردار سمجھنے لگتا ہے۔اسی طرح جب جب میں کتاب کے صفحات پلٹتی گئی۔ ہر افسانہ ایک نئی اور دلچسپ کہانی لیے تھا ۔برسات کی رات کے کرداروں سے تو اپنے فن وفکر کی گہری سیاہی سے اردو افسانوی ادب کی پیشانی کو منور کرنے میںکامیاب ہوئے ہیں ۔ہر افسانے کا ایک اپنا ہی رنگ روپ ہے۔
 دل ہی تو ہے،مجبور،جیت ،بہت سے ایسے افسانے جن کی کہانیاں امر بیل کی طرح خود بخود توبہ ؔ کے اوراق پر پھیلتی ہی چلی گئیں ۔بلاشبہ امجد مرزا کے افسانے کی عصری تاریخ نمایاں مقام رکھتے اور تخلیقی کام کے لیے پہچانے جاتے ہیں ۔ اپنے فن و فکر کی گہری سیاہی سے اردو افسانوی ادب کی پیشانی کو روشن رکھنے کا ہنر آتا ہے ۔زیر نظر مجموعے توبہ ؔ میں ان کے بتیس افسانے اپنے بنیادی اسٹر کچر کے اعتبار روایت سے قریب ہونے کے باوجود ایک ایسے موڑ پر جا کر ختم ہوتے ہیں
 کہ انسان جنجھلا اُٹھتا ہے۔برسات کی رات بظاہر ایک سیدھا سادہ افسانہ لگتا ہے مگر یہ سادگی گہری فنی بصیرت کے حصول کے بعد ہی آتی ہے۔توبہ ؔ افسانہ نہایت خوبصورت کاوش ہے ۔جس پر مصنف نے پوری کتاب کا بوجھ لاد دیا ہے۔
 ہر افسانے کا کرداراپنا ہی دیکھائی دیتا ہے۔ امجد مرزا نے توبہ ؔ جیسے مختصر افسانے کو فنکارانہ انداز میں لکھا ہے اور یہ قاری پر بھرپور تاثر چھوڑتا ہے۔علامتی افسانے کے ذریعے بیان کی جانے والی کہانی چونکہ ہماری زندگی سے قریب تر ہے۔ مصنف کے ہر افسانے کا لہجہ اور لفظوں کا چناؤ خود گواہی دیتا ہے۔ان کہانیوں کا تخلیق کرنا انہیں دوسرے قلمکاروں سے علیحدہ کرتا ہے۔میرے خیال سے امجد مرزا صاحب کے فن پر تبصرہ کرنا میرے لیے ایک کارِ مشکل ہے۔ہر کہانی ہر افسانے پر توصیف یا تنقید کرنا بھی چاہوں تو میرے سارے لفظ دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور میں ان کے فن کا حق
 ادا ہی نہیں کر پاؤں گی ۔حقیقت کی بلندیوں کو چھوتے یہ افسانے توبہ ؔ کا ورد کرتے لفظ معصومیت کو چھوتے ،بے غرضیوں میں بہت سلیقے سے لپٹے ہوئے مصنف کی ذ ہنی ،فکری اور تخلیقی بلندیوں کو چار چاند لگائے ہیں ۔ میں اتنا ہی کہوں گی انشائیہ ہو،کہانی یا افسانہ جب تک امجد مرزا صاحب بحیثیت مصنف اپنے قلم میں سچائی اور محبت اسی طرح سمیٹتے ان کا ہر لفظ بولتا اوران لفظوں کے چمن میں سدا بہار پھول کھلتے رہیں گے۔ آخر میں اتنا کہوں گی توبہ ؔ کو اس لیے ضرور پڑھئے کہ اس کتاب کا تخلیق کار ایک شاعر ،افسانہ نگار ،انشائیہ لکھنے والا
 نقاد،اور ایک کالم نگار بھی ہے ۔ان سب خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت اچھا ہمدرد انسان و دوست بھی ہے۔
 توبہ ؔ افسانوں کا مجموعہ امید ہے ادبی پر ستاروں کے لیے ایک نایاب تحفے کی حیثیت رکھے گا ۔میں اس کتا ب کے مصنف امجد مرزا صاحب کو اس کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد ۔میرے خیال سے توبہ ؔ کے لیے تبلیغ کی ضرورت نہیں پڑے گی
 بہت سی دعاؤں کے ساتھ

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE