Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

فوزیہ مغل

نہ وہ کچّے گھڑے ہیں نہ وہ سوہنیاں ہیں

رواجوں میں جکڑی ہوئی لڑکیاں ہیں

درِ گور پر ہیں وہ زندہ کہ جن کے

نصیبوں پہ چھائی ہوئی بدلیاں ہیں

نہیں دستِ قاتل کی پہچان ان کو

یہ خوش رنگ معصوم سی تتلیاں ہیں

کریں ٹوٹ کر اپنے دل کو جو زخمی

یہ نازک سے احساس کی چوڑیاں ہیں

ترستی ہیں جو روشنی کی کرن کو

کچھ ایسی یہ گمنام سی بستیاں ہیں

منّور تو کرتی ہیں بزمِ جہاں کو

مگر اِن کی قسمت میں تاریکیاں ہیں

کہاں اپنی ڈوریں ہیں ہاتھوں میں ان کے

یہ اوروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں ہیں

ازل سے جو چھائی ہیں ان کے سروں پر

وہ رنج اور غم سے بھری بدلیاں ہیں

یہ فاتح ہوئیں تو بھی مفتوُح ٹھہریں

نظامِ کُہن کی یہ وہ رانیاں ہیں

غزل

گفتار میں وہ اپنی بے باک ہو گیا ہے

جیسے کہ ہر کمی سے وہ پاک ہو گیا ہے

آنکھوں کی پتلیوں میں ٹھہرا وہی ہے منظر

جس سے کہ دل ہمارا صد چاک ہو گیا ہے

رکھنا پڑے گا پھر بھی ہم کو بھرم وفا کا

مانا کہ جلتے جلتے دل خاک ہو گیا ہے

رکھوں میں کیسے آخر زخموں پہ اپنے مرہم

ہر غم میرے بدن کی پوشاک ہو گیا ہے

کہنے کو ہم سے بچھڑا اک شخص فوزیہ، پر

ماحول کیوں یہ سارا نمناک ہو گیا ہے

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE