Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

باب: 4

وادی نیاٹ کے غریب مظلوم لوگ ۔

چاق اور ماہ چاق کی کہانی

جالو پر سفر ۔ تھلپن اور قدیم تاریخ

گھر پہنچے تو صاحب خانہ کے دو عزیز انتظار میں بیٹھے تھے۔ سیدھے سادے معصوم سے لوگ جو چلاس شہر خریداری کے لئے آئے تھے۔ میرا سُن کر بیٹھ گئے کہ میں ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے حکام بالا کو ضرور آگاہ کروں۔قصہ یوں تھا کہ تھک داس پلین میں گورنمنٹ نے لاکھوں روپے کے خرچ سے نہر نکالی۔ پلاٹ بنائے ۔اب ان پلاٹوں کو مقامی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدہ داران نے ۱۳۰۰۰ (تیرہ ہزار روپے) فی مرلہ اپنے واقف کاروں اور رسوخ والے امیر لوگوں کے ہاتھ بیچ دئیے۔ بابو سر نیاٹ کے غریب لوگ جن کا پہلا حق تھا منہ دیکھتے رہ گئے۔اب میں انہیں کیا بتاتی کہ تھک نالے کی بستی بابو سرنیاٹ ہو یا لاہور جیسے بڑے شہر کی کوئی عام سی آبادی۔ غریب کے استحصال کا سلسلہ تو زور دشور سے جاری ہے۔ عدل کے دروازوںکی کنڈیاں اتنی اونچی ہیں کہ انہیں کھولنے کے لئے غریب بیچارے کی قد و قامت سرے سے بہت چھوٹی ہے۔لیکن میں نے سچ کے ڈنگ سے انہیں زخمی نہیں کیا۔ کیونکہ ایک تو میرا ایمان ہے کہ بے شک گڑ نہ دو پر گڑ جیسی بات تو کرو۔ دوسرے یقینا مجھے اپنے آپ کو کم مایہ ظاہر کرنا بھی مقصود نہ تھا۔صاحب خانہ مجھ سے کہتے تھے۔یہ میرے گہرے عزیز ہیں۔ ان کے والد اور میرے والد ’’سومو‘‘ کی رسم ادا کرنے کے بعد حقیقی بھائی بنے تھے۔ ہمارے دستور کے مطابق جب دوستی کو محرم کے رشتے میں بدلنا ہو تو ’’سومو‘‘ بنایا جاتا ہے۔ یعنی بکرے وغیرہ ذبح کر کے گاؤں والوں کی ضیافت کی جاتی ہے۔ ان کا تعلق یشکن قبیلے سے ہے۔ میرے والد نے دس بکرے ذبح کئے تھے۔ والدین کے بعد اب ہم لوگ بھی ایک دوسرے کے لئے بہت خلوص اور محبت رکھتے ہیں۔‘‘میرے ہونٹوں پر بے بسی سے لبریز مسکراہٹ کو بے چارے سادہ لوح لوگ کیا سمجھتے؟ بہرحال میں نے پکا وعدہ کیا کہ نیچے جاتے ہی اس مسئلے کو ضروری اہمیت دوں گی۔ پر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔جس وقت گل جان نے چھوٹی سی چُوں چُوں کرتی میز لا کر ہمارے سامنے رکھی۔ اس وقت ایک بجنے والا تھا۔ کھانا کھاتے ہوئے محمد صادق نے چلاس کے چہرے کے اولین نقش و نگار دکھائے۔

روایت ہے کہ چلاس اور ا سکے آس پاس کے علاقے پر ایک ہندو راجہ حکومت کرتا تھا۔ اس کے دو لڑکے تھے۔ چاق اور ماہ چاق۔ باپ مرا تو بڑا بھائی چاق بوٹ (والی یا امیر) بنا۔ لیکن چھوٹے بھائی کویہ گوارہ نہ ہوا۔ اس نے لوگوں کو اکسایا اور اعلان جنگ کر دیا۔ زبردست لڑائی ہوئی۔ بوٹ نے یہ لڑائی جیتی لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بھائی کی حق تلفی نہیں کرے گا اس نے ماہ چاق کو بلایا اور کہا۔

آؤ ہم دونوں پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر نشان زدہ تیر پھینکتے ہیں۔ یہ تیر جہاں جہاں لگیں گے وہ علاقے ہماری سلطنت ہوں گے۔ ماہ چاق کو یہ تجویز پسند آئی۔

کہا جاتاہے کہ دونوں اپنے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اپنے اپنے تیروں کے تعاقب میں بھاگے۔ ماہ چاق چترال کے مشرق کی طرف وادی بشقار گول میں خیمہ زن ہوا۔ چترال میں اس وقت رئیس خاندان کی حکومت تھی۔ سنا ہے رئیس نے اپنا نمائندہ بھیجا تو ماہ چاق نے سونے کی کرسی پر بیٹھ کر اس سے مذاکرات کئے۔اللہ حکمران ماضی کے ہوں یا حال’ کے جاہ و حشمت کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔میں نے بے اختیار سوچا ۔بڑا بھائی جو بوٹ کہلاتا تھا۔ اس کی حکومت جب ختم ہوئی تو یہ سارا علاقہ الگ الگ ریاستوں میں بٹ گیا۔ گوہر آباد‘ تھک تھور’ داریل تانگیر’ ہربن شتیال’ سازین اور جلکوٹ میں جسٹیرو سسٹم کے تحت حکومت شروع ہوئی۔

۱۸۴۲ء میں گلگت پر سکھوں نے قبضہ جمانے کے بعد چلاس پر حملہ کیا۔ لیکن بہادر چلاسیوں نے داریل اور تانگیر کے شہ زور لوگوں کی مدد سے انہیں زبردست شکست دی۔ انگریزوں نے عیاری سے اس علاقے پر قبضہ ضرور کیا مگر ان لوگوں نے سدا انہیں تنگ کیا۔خدا کا شکر ہے کہ اب یہ پاکستان کا ایک حصہ ہے۔محمد صادق کے شکر کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے بھی خدا کا شکر ادا کیا کہ ایسے جیالوں کی سرزمین میرا وطن ہے۔

ماضی کے دریاؤں میں غوطہ خوری کے بعد جب میں اٹھی۔ اس وقت ڈیرھ بج رہا تھا۔ میں نے صادق سے کہا کہ وہ تھلپن جانے کے لئے کسی سوزوکی کا بندوبست کرے جب تک میں ظہر کی نماز سے فارغ ہو جاؤں۔برآمدے میں کھڑے تخت پوش کو بچھایا۔ گل جان نے قریب آکر استفہامیہ انداز میں کہا۔ صبائے نماز (ظہر کی نماز) میں نے بس قیافے سے اس کا مطلب سمجھا اور مسکراتے ہوئے سر کو اثبات میں ہلا دیا۔کسری نماز کے دو فرض جلدی ہی پڑھے گئے۔ فارغ ہو کر رخ سیدھا کیا۔ دھوپ کی تیزی نے آنکھوں کو چُندھیا دیا تھا۔ دن کسی بیماری کی دکھ بھری رات کی طرح لمبا ہو گیا تھا۔ یہی دن جو گھروں میں پل جھپکتے گزر جاتا ہے۔تھلپن کا گاؤں دریائے سندھ کے پار ہے۔ سوزوکی میں بیٹھ کر تیز دھوپ میں چمکتے نانگا پربت کے نظارے پھر دیکھے۔ دریائے سندھ کے پاس سوزوکی رک گئی۔ پتہ چلا کہ تھلپن جانے کے لئے ’’جالو‘‘ سے سفر کرنا ہو گا۔ جالو دراصل ہوا سے بھری ہوئی مشکوں اور بانس کے ڈنڈوں سے بنی ہوئی مقامی کشتی کا نام ہے۔ ایسے علاقے جہاں درمیان میں دریا حائل ہیں اور پل نہیں ’رابطے کا واحد ذریعہ یہی جالو ہیں۔جالو پر قدم رکھتے ہی میرے دل نے دھک دھک کی صدائیں لگانا شروع کر دی تھیں۔ میں نے سہم کر فی الفور اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو بغور دیکھا کہ کہیں ڈوب کر مرنے کی کوئی علامت تو نہیں۔میرے سامنے تھلپن کا میدان پھیلا ہوا تھا۔ دریائے سند ھ کے کناروں پر پڑے بڑے بڑے پتھروںپر ایسی کندہ کاری تھی جو زمانے گزر جانے کے بعد بھی ہنوز روز اول کی طرح نمایاں تھی۔ اگر ڈاکٹر احمد حسن دانی کے مقالات میری نظر سے نہ گزر چکے ہوتے تو شاید میں ان کی تاریخی باریکیوں کا صحیح طرح اندازہ نہ کر پاتی جن کی عکاسی یہ تصویریں اور تحریریں کرتی ہیں۔جانوروں میں مارخور اور پہاڑی بکروں کی تصویریں تھیں۔ پر تھین سپاہی ان جانوروں کا شکار کرتے نظر آتے تھے۔ ان کے لباس اور ہتھیاروں سے تاریخ کی معاشرتی گتھیوں کو کھولنا مجھ جیسی مبتدی کے لئے بہت دلچسپ تھا۔ کہیں گڈرئیے بھیڑ بکریاں چرا رہے تھے۔ کہیں شکاری شکار کرتے تھے۔ایسی ہی تصوریں پیرو کے جنوبی صحرا ناز کا اور پالیا کے قصبوں میں بھی سینکڑوں مربع میل کے رقبے پر مشتمل خشک سطح مرتفع میں پائی گئی ہیں۔ صحرائی جانوروں کی دیو ہیکل اور مختلف اقلیدس شکلیں دیکھ کرلوگ حیرت سے سوال کرتے ۔بھلا قدیم باشندوں نے یہ کیوں اور کس لئے بنائیں؟مگر ماہرین نے ان کے مطالعے سے یہ ثابت کیا کہ کچھ نقشے اور خاکے شمس و قمر کے نقطہ انقلاب اور کچھ بودو باش اور کچھ ثقافت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ہمارے ساتھ ڈرائیور لڑکا بھی تھا۔ وہ گزشتہ ماہ دو جرمنوں کو شتیال اور کھنرلے کر گیا تھا۔ بتا رہا تھا کہ وہ لوگ سارا دن پاگلوں کی طرح وہاں پھرتے رہے تھے۔مجھے یہ سوچ کر ہنسی آئی کہ وہ کہتا ہو گا اب ایک اور پاگل عورت پتھروں کو آنکھوں سے چاٹتی پھر رہی ہے۔عصر کی نماز میں نے تھلپن کے گاؤں میں پڑھی۔ ازل اور ابد کے زاویوں میں بھٹکتا ذہن ایک نقطے پر آکر رک گیا تھا۔ ماضی فنا ’حال اور مستقل فنا کی طرف رواں دواں۔چلاس میں ستھین دو رکے چٹانی کتبے اس عہد کی پوری تاریخ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ بدھ مت کے سٹوپاجن کے سامنے ستھین سپاہی احتراماً گھوڑوں سے اترتے دکھائی دئیے گئے ہیں۔ ان تصاویر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ستھین حکمرانوں نے بدھ مت کی سرپرستی کی تھی۔

اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ستھین کون لوگ تھے؟غیر مستند حوالوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ دراصل شین ہی ستھین ہیں۔ لیکن یہ بات ابھی تحقیق طلب ہے کہ ستھین اور آریاؤں میں کس قسم کی بھائی بندی قائم تھی۔ ستھین کے بعد پرتھین آئے۔گھومتے گھومتے شام ہو گئی تھی۔ موسم کی تمازت اب خوشگواری میں بدل گئی تھی۔ اس وقت میرا جی ایک کپ چائے پینے کو چاہتا تھا۔ لیکن ان ویرانوں میں چائے کہاں ؟تھک کر میں ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گئی۔ اس پر عجیب وغریب قسم کی تحریر تھی۔غالباً یہی وہ تحریریں ہیں جنہیں کھروشتی کہا گیا ہے۔تھلپن چھوٹی سی وادی ہے۔ ستر اسی گھروںپر مشتمل لوگوں کی اکثریت اپنے گرمائی مستقر ملٹ ہروپے کی چراگاہوں میں گئی ہوئی تھی۔ سواتی اور سونی وال ذات کے لوگ یہاں رہتے ہیں۔چلاس کے مشہور کھنر نالے کے یخ پانی نے طبیعت کو فرخت اور تازگی دی۔ نالہ کا دریا میں گرنا بھی ایک دلفریب منظر تھا۔جالو بان ہمارا منتظر تھا۔ کشتی میں بیٹھی تو ہنستے ہوئے بولا۔بی بی کیسا لگا آپ کو ہمارا علاقہ‘‘۔میں نے ہنس کر جواباً کہاتمہارا کیوں؟ میرا نہیں ہے یہ‘‘۔جس وقت گھر پہنچے تو مغرب ہو چکی تھی۔ نماز کی وہ چوکی جس پر ظہر پڑھی تھی۔ اس وقت مرغی کی بیٹوں سے یوں بھری ہوئی تھی جیسے کسی خوبصورت سے بچے کا گندمی چہرہ پھول ماتا کے داغوں سے بھر جاتاہے۔نماز کا خیال چھوڑ کر لکڑی کی سیڑھی سے چھت پر چڑھ گئی۔ ہوائیں اتنی تیز اور گرم تھیں کہ یوں لگتا تھا جیسے پروردگار نے دوزخ کی کھڑکی کا چلاس پر واقع روشن دان کھول دیا ہو۔ ساتھ والوں کے گھر اگا ہوا بادام کا درخت چھت پر جھکا ہوا تھا۔ گل جان نے چند بادام توڑ کر میری ہتھیلی پر رکھے۔ گری بڑی لذیز اور میٹھی تھی۔ اس وقت میں نے سوچا اگر یہ درخت میرے صحن میں اگا ہوا ہوتا تو میں کتنی خوش نصیب ہوتی۔ روز سردائی گھوٹ گھوٹ کر خود بھی پیتی اور اولاد کو بھی پلاتی۔دور سفید ے کے درخت ہواؤں سے جھوم جھوم جاتے تھے۔ نانگاہ پربت پر پریوں کا کوٹ (قلعہ) اب نظر نہیں آتا تھا۔ نیچے آنگن میں گھر والی مٹی کے تیل والے چولہے پر جانے کیا پکا رہی تھی۔ خوشبو ناک کے نتھنوں میں گھس گھس کر بھی کچھ واضح نہیں کر پاتی تھی۔ملگجے اندھیرے میں مجھے یوں لگا جیسے گل جان کے رسیلے گلابی ہونٹ کچھ کہنے‘ کچھ پوچھنے کے لئے پھڑپھڑا رہے ہوں۔ اس کی ہیرے کی مانند چمکتی آنکھوں میں جیسے حجاب اور شوق کے رنگ گھلے ملے ہوں۔ ابھی میں اس کی کیفیت کا جائزہ لینے میں مصروف تھی کہ اس نے خود ہی پہل کر دی۔آپ کو محمد صادق کیسا لگا؟‘‘اچھا لڑکا ہے‘‘۔ میں نے سادگی سے کہاپر اگلے ہی لمحے مجھے اپنی بیوقوفی پر ہنسی آئی ارے‘‘ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھاتو یہ بات ہےوہ کچھ جھینپی۔ یہ پتہ چلا کہ صادق کے گھر والے گل جان کا رشتہ چاہتے ہیں۔ خود محمد صادق اسے میٹھی نظروں سے دیکھتا ہےمیں حیران رہ گئی۔ جب چودہ سالہ گل جان نے آرزدگی سے کہا۔ ’’ہمارے یہاں دھاپ کا رواج ہے۔ لڑکی والے لڑکے والوں سے پیسہ لیتے ہیں۔ میرے ابا نے پچاس ہزار روپیہ مانگا ہے۔ صادق کا باپ نہیں۔ اس کے بھائی بھی امیر نہیں۔ اتنا پیسہ وہ کہاں سے لائے گا؟‘‘میں گنگ بیٹھی اس کے معصوم چہرے کو تکتی تھی۔ اتنی سی عمر اور ایسا دکھ۔ نیچے سے آواز پڑی اور ہم دونوں چونک اٹھیں۔روٹیوں کی چنگیر اور سٹیل کی پلیٹ سامنے آئی تو پتہ چلا کہ اتنا شور شرابا کرنے والا سالن انڈے گنڈے تھا۔کھانے کے دوران پتہ چلا کہ گھر والے کل بابو سرٹاپ جا رہے ہیں۔ پانی کا وہ گلاس جو ہونٹوں سے لگانے کے لئے میں نے اٹھایا ہی تھا واپس میز پر رکھتے ہوئے کہا ایک دن کے لئے میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گی۔ ایسی جگہوں پر جانے کے مواقع روز روز نہیں ملتے۔ جواب میں صاحب خانہ نے ’’شوق سے چلئے‘‘ کہا۔اب اللہ جانے کہ ’’شوق سے چلئے‘‘ کہنے میں مجبوری تھی یا فی الواقع جذبہ بھی تھا۔میں اس جھمیلے میں زیادہ نہیں الجھی۔ کبھی کبھار خود داری اور آن کو اپنے سے الگ کر کے طاق پر سجا دینا زیادہ سود مند رہتاہے۔ کیونکہ میرے خیال کے مطابق کسی بھی جگہ پر لکھنے کے لیے مقامی زندگی میں رچنا بسنا ضروری ہے۔ حالات اگر کچھ مدت کی اجازت نہ دیں تو جتنا وقت بھی ہاتھ آئے تو اسے بھرپور انداز میں سمیٹنا چاہیے۔ چلاس کی تین چوتھائی آبادی تو نالوں میں بیٹھی تھی۔اسی لئے میں خوش تھی اور گل جان مجھ سے بھی زیادہ خوش۔عشاء کی نما زپڑ ھ کر دعا کے لئے ہاتھ پھیلے اور آنکھیں بند ہوئیں تو بچے دھم دھم کرتے جائے نماز پر آکر بیٹھ گئے۔میں خطرناک راستوں کی راہرو بن گئی تھی۔ چودہ ہزار فٹ پر سفر کرنے والی تھی۔ میں عافیت کی طلب گار تھی۔ اپنی‘ اپنے بچوں اور گھر والے کیاحساسات کی شدت نے میرے سر کو زمین پر ڈال دیا۔ میں نے طلائی کرسی پر بیٹھے‘ اپنے رب کی ٹانگوں کو اپنے بازوؤں کے حصار میں لے لیا تھا۔ میرا رب جو کبھی نور کا ہیولا بن جاتا اور کبھی مادّی روپ میں ڈھل جاتا ہے۔ میں اپنی مرضی کے مطابق اس کے مختلف بت تراشنے کی مجرم ہوں لیکن کیا کروں۔ مقدم تو مجھے اپنی قلبی تسکین ہے۔رات خاصی خوشگوار تھی۔ پر چلاس کے مچھر جنہیں  کہا جاتا ہے بڑے ظالم نکلے۔ کم بختوں کے کاٹنے کا انداز اُس چلبلے عاشق جیسا تھا جو بار بار اپنی محبوبہ کے رخساروں کی چٹکی کاٹنے سے باز نہیں آتا۔چلاس کی گرمیوں اور مچھر دونوں بڑی شہرت رکھتے ہیں اور میں ان دونوں سے لطف اندوز ہوئی گل جان نے صبح سویرے چائے بنا لی تھی۔ کیک نما کلچہ ذائقہ دار تھا۔ صادق ہمارے ساتھ جا رہا تھا۔ اس کی ماں اور بھائی لوشی میں تھے۔ مجھے گل جان کے خوش ہونے کی وجہ اب سمجھ آئی تھی دونوں ماں بیٹیوں نے چادریں اوڑھنے سے پہلے سروں پر ٹوپیاں رکھیں۔یہاں کا دستور ہے۔گل جان ہنسی

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE