غزل ۔ عزیز نبیل
یہ کس مقام پہ لایا گیا خدایا مجھے
کہ آج روند کے گزرا ہے میرا سایہ مجھے
میں جیسے وقت کے ہاتھوں میں اک خزانہ تھا
کسی نے کھودیا مجھ کو کسی نے پایا مجھے
اک آرزو کے تعاقب میں یوں ہوا ہے نبیل
ہوا نے ریت کی پلکوں پہ لا بٹھایا مجھے
میں ایک لمحہ تھا اور نیند کے حصار میں تھا
پھر ایک روز کسی خواب نے جگایا مجھے
جہاں کہ صدیوں کی خاموشیاں سلگتی ہیں
کسی خیال کی وحشت نے گنگنایا مجھے
اِسی زمیں نے ستارہ کیا ہے میرا وجود
سمجھ رہے ہیں زمیں والے کیوں پرایا مجھے
نہ جانے کون ہوں، کس لمحہٴ طلب میں ہوں
نبیل چین سے جینا کبھی نہ آیا مجھے