Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

 اردو کی پہلی صوفی شاعرہ

تحریر: فرحت عباس شاہ

میں اگرچہ محقق نہیں ہوں لیکن ادب کے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے کوشش ھوتی ہے کہ اگر ہر تخلیق پارہ نظروں میں نہ بھی آئے مگر ٹرینڈ سیٹر تخلیقات حتی الوسع ضرور دیکھ لی جائیں ۔ برصغیر میں صوفیائۓ کرام نے دینی ، دُنیاوی اور علمی و ادبی حوالے سے جو خدمات سر انجام دیں وہ ایک بڑے ریفرینس کی حیثیت سے ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہی ہیں اور رہیں گی۔ خاص طور پر پنجابی صوفی شُعرا نے اپنا اپنا جو کلام ھمارے لیے چھوڑا اس کیی مثال دُنیا میں نہیں ملتی۔ البتہ اس کے بعد سابق صدر ایوب خان کے دور میں جس طرح تصوف کو سیاسی اور بیوروکریٹک سٹئیل سے مارکیٹ کرنے کی کوشش کی گئی اس سے اصلی اور حقیقی تصوف کی روح پر ضرب پڑی ۔ رہی سہی کسر کاروباری ، فیشنی اور مڈیا مسند صوفیا ئے کرام نے پوری کردی ۔ جو گُفتگُو بعد میں اور اور فوٹو سیشن پہلے شروع کروا دیتے ھیں۔ میرا اس بات پے پورا ایمان ہے کہ دُنیا میں ایسے لوگوں میں صوفی سرِفہرست ہے جو اپنے نظرے کو عملی زندگی اور اپنے معاشرتے کردار میں پوری کامیابی سے منعکس کرپاتے ہیں ۔ ورنہ بڑے بڑے انقلابی اور نظریاتی جینئیس زندگی کی عملی حقیقتوں اور نظرے کو ایک پیج پہ نہیں لاسکے۔ اور یقینا" اس میں بنیادی کردار عسق اور اس کی شدت کا ہوتا ہے۔ کمٹمینٹ اور عشق کے بنیادی فرق سے نظریے اور کردار کی ناہمواری کو سمجھا جا سکتا ہے۔ میں نے اپنے بہت سے دوستوں سے دریافت کیا کہ اردو زبان میں تو بس گنے چُنے مرد شعراء کے صوفی اسلوب نظر آتا ہے تو کیا کوئی خاتون شاعرہ بھی ایسی ہیں جنہیں ہم اس ضمن میں شمار کرسکیں۔ تو پتہ چلا کہ ہم ایسی کوئی مہر باقاعدہ کسی پر ثبت نہیں کرسکتے لیکن اگر کسی کا دعویٰ ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ میں نے آج سے چند سال قبل اینجینئرنگ یونیورسٹی کے ایک مشاعری میں ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کو سُنا اور چونک گیا۔ میں نے یہ خالص اور سُچا لب و لہجہ پہلی بار کسی خاتون شاعرہ کے ہاں دیکھا تھا۔ ہمارے ادب کی تاریخ میں بہت اعلیٰ خواتین شاعرات کے تخلیقی حوالے موجود ہیں لیکن صوفیانہ کیفیت اور بیان ھمارے پنجابی بابوں کے بعد تو جیسے رہا ہی نہیں۔ دورِ جدید کے بہت سارے اردو اور پنجابی شعراء نے صوفی شاعر کا لیبل حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن یہ بھُول گئے کہ زور لگانے سے یہ رُتبہ حاصل ہونا ھوتا تو ، شوکت ہاشمی، علی اکبر عباس ، سرمد صہبائی، اور فرحت عباس شاہ کب کے صوفی شاعر قرار پا چُکے ہوتے۔ یہ تو باطنی جہانوں اور کیفیاتی آسمانوں کے معاملات ہیں لفظوں کی بازیگری اور فنی چابکدستیوں سے تو ان کا دور کا واسطہ نہیں۔ پھر مجھے ایک محفل میں شاہدہ کی نظم بُکل سُننے کا اتفاق ہوا جو بِلا کسی مبالغے کے ہمارے صوفی ورثے میں پھول کی طرح سجا دینے والی تخلیق ہے ۔ بھلا ہو ممتازشاعر،محقق، افسانہ نگار اور حقیقی دانشور ڈاکٹر غافر شہزاد کی جس کی بدولت مجھے دس سالوں کے بعد ایک دفعہ پھر سے حلقہ اربابِ ذوق جانا نصیب ہوا جہاں شاہدہ دلاور شاہ کی ذات میں موجود اس صوفی سے ملاقات ہوئی جسے منکے پہن کے یا پند و نصائح پر مبنی لیکچر دے کر اپنی شناخت کروانے کی ضرورت پڑتی۔ وہ فی زمانہ ہر طرح کی مشکلات اور دُنیاوی آلائشوں کو ٹھوکر مارنے کی تڑاخ دار آواز اور استغنا کی گہری خاموشی کے علاوہ دیکھی تو کیا محسوس بھی نہیں کی جا سکتی۔ وہ ایسی ہی ہے اور ایسے سچے روئیے اس کے ہیں ذات اور دُنیا دونوں جگہ پورے توازن کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ وہ عشق جیسی بنیادی قوت سے سرشار اور ایثار جیسے عملی کردار سے مالا مال شاعرہ ہے۔ اور پھر آخری اور حتمی مُہر عشق ِ رسالت مآبﷺ نے لگا کے شک و شُبے کی گنجایئش ہی ختم کردی۔ جس کی گواہی کے لیے ہمیں شاہدہ دلاور شاہ کا نعتیہ مجموعہ ہی کافی ہے۔ میری طالب علمانہ سوچ کے مطابق صوفی ہونے کے لیے خالص انسان ہونے کا قرینہ ہی پہلا زینہ ہے۔ شاہدشاہ بطور انسان اور بطور ایک تخلیق کار کے بلکہ کسی شفاف شیشے کی طرح ہے جس کے آر پار جھانکنا چنداں مشکل نہیں۔ منافقت اُسے چھُو کے نہیں گُزری اور کلمہء حق کہتے ہوئے اس کی زبان نے کبھی لغزش نہیں کھائی۔ وہ ایک اجلی عورت اور سُچی شاعرہ ہے۔ میں تو اُسے دیکھتا ہوں تو میرا دل مچل اُٹھتا ہے کہ جلدی سے کہہ دوں ، بابا جی میرے واسطے دعا کر دیو، میں ایس بُری دُنیا دے ہتھوں بڑا تنگ آں۔

آخر میں شاہدہ دلاور شاہ کے چند اشعار۔

دریا کی مسافت نے کہیں کا نہیں چھوڑا

یک طرفہ محبت نے کہیں کا نہیں چھوڑا

عُشاق چلے آئے ہتھیلی پہ لیے سر

وہ حسنِ طلب تھا کہ کہیں کا نہیں چھوڑا

-----

کندھاں اُتے لیکاں دا کی مُل پیناں

چُپ چُپیت اُڈیکاں دا کی مُل پینا

آپ وسایا کربل اپنے اندر میں

پانی پیاس تے چیکاں دا کی مُل پیناں

--------

چاروں طرف میں اُس کے قدم ڈھونڈتی رہی

اس گھر میں کوئی پانچواں کونا تو ہے نہیں۔

-----------

جس وقت سے آنے کا سُنا ہے تِرا گھر میں

چیزوں کو میں رکھنے میں اُٹھانے میں لگی ہوں

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE