Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

آہ ،بانو آپا
رضاالحق صدیقی

میں اس وقت ایکسپو سنٹر میں بین الاقوامی کتاب میلے میں بک کارنر کے سٹال پر کھڑا ہوں،میرے فون کی سکرین پر میسج بلنک کر رہا ہے،ہمارے صحافی دوست اسلم ملک کا میسج تھا،بانو قدسیہ انتقال کر گئیں۔اناللہ واناالیہ راجعون۔میں سن ہو کر رہ گیا،ادب کا ایک اور ستارہ خلاؤں میں کہیں گم ہو گیا۔ 
آج ہی کے دن گذشتہ سال،ابھی کل کی بات لگتی ہے،ایکسپو سنٹر لاہور میں بین الاقوامی کتاب میلہ جاری تھا،چار فروری کو میری نئی کتاب ،،دیکھا تیرا امریکہ ،، اسی روزچھپ کر میلے میں پہنچی تھی،بک کارنر کے سٹال پراپنی نئی کتاب کو پہلی بار دیکھ رہا تھا،اطمینان اور خوشی میرے چہرے سے جھلک رہی تھی،میں اپنی خوشی کسی سے شیئر کرنا چاہتا تھا،بک کارنر کے امر شاہد نے پانچ کتابیں ایک لفافے میں ڈال کر مجھے تھما دیں،میں کتابوں کا شاپر تھامے میں کچھ ہی دور گیا تھا کہ جمہوری پبلیشرز کے سٹال پر سہیل گوئندی نظر آئے معروف دانشور ہیں،پرانے دوست ہیں،ان کے سٹال پر ان سے بات چیت شروع ہی کی تھی کہ گوئندی بات کو ادھوری چھوڑ کر اپنے سٹال کے گیٹ کی طرف لپکا۔میں نے نظر اٹھا کر ادھر دیکھا تو نورالحسن بانو آپا کو وہیل چیئر پر بٹھائے سٹال میں داخل ہوا،گوئندی بانو آپا کے استقبال کے لئے ہی لپکا تھا۔گوئندی نے موجود افراد کا تعارف کرایا،آپا نے سر ہلا کر سب کی طرف دیکھا،میری طرف دیکھ کر شناسائی کی ایک جھلک ان کے چہرے پر ابھری،انہوں نے کچھ کہنا چاہا کہ گوئندی نے انہیں اپنی طرف مخاطب کر کے ایک خاتون کے بارے میں بتانے لگے کہ ان کی دو کتابیں نامزد ہوئی ہیں،ان پر آٹوگراف دے دیں،خاتون نے کتابیں آگے بڑھائیں اور آپا نے ان پر دستخط کر دیئے۔میں نے اپنی کتاب آگے کی،انہوں نے نظر اٹھائی مسکرائیں،اس پر بھی آٹوگراف،انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا،میں نے ان کا سوال بھاپ کر کہا ،یہ آپ کے لئے ہے۔آپا نے کتاب اپنی جھولی میں رکھتے ہوئے پوچھا تمہاری شاعرہ بہن کیسی ہیں،مجھے بانو آپا کی یادداشت پر رشک آنے لگا،انہیں یاد تھا جب اپنی شاعرہ بہن صبیحہ صبا کی کتاب ،،،،،،،،،،،،، کی تقریبِ رونمائی میں مہمانانِ گرامی کی حیثیت سے اشفاق احمد مرحوم اور بانو آپا کو مدعو کرنے داستان سرائے گئے تھے اور انہوں نے ایسا برتاؤ کیا تھا جیسے جانے کب سے جانتے ہوں۔آج کئی سال بعد انہوں نے مجھے پہچان لیا تھا۔
بانو قدسیہ ،کب سے لکھ رہی ہیں،شاید میری پیدائش سے بھی پہلے سے،بانو آپا کو بچپن سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا،عالم یہ تھا کے پانچویں جماعت میں پہلی کہانی جبکہ آٹھویں جماعت میں پنجاب بھر میں اول آنے والا ڈرامہ لکھا۔ 
بانو آپا نے ایک انٹرویو میں خود کہا ہے کہ ان کا پہلا افسانہ غالباََِِِ1949یا شاید1950میں ادبِ لطیف میں شائع ہوا، یہ وہ وقت تھا جب بانوآپا پر اشفاق احمد کا اثر نہیں پڑا تھا،ان کا اسلوبِ نگارش ان کا اپنا تھا۔یہ اسلوبِ نگارش ان کا زمانہِ طالب علمی کا تھا۔بانو آپا کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی،ان کے والد ایک زمیندار تھے جو ان کی کمسنی میں انتقال کر گئے تھے اس لئے ان تربیت ان کے نانا اور والدہ نے کی جوکالج کی پرنسپل تھیں،قیامِ پاکستان کے وقت بانو آپا پاکستان آ گئیں جہاں کینیرڈ کالج سے بی اے کیا اور 1951میں گورنمنٹ کالج سے ایم اے اردو کیا۔1955 میں بانو آپا اشفاق احمد کے عقد میں آگئیں۔
1949 میں ادبِ لطیف میں چھپنے والے افسانے سے ان کی اس دنیا سے رخصتی تک انہوں نے بے پناہ لکھا ۔بانو قدسیہ کی کچھ تحریریں متنازعہ بھی رہی جیسے قدرت اللہ شہاب پر لکھی گئی کتاب ،مرد بریشم ،پرممتاز مفتی جیسے دانشور اور کئی اور نے تنقید کی۔ان کی دیگر کتب میں ،راجہ گدھ،شہرِ بے مثال،توجہ کی طالب،چہار چمن،سدھراں،آسے پاسے،دوسرا قدم،آدھی بات،دست بستہ،حوا کے نام،سورج مکھی، پیا نام کا دیا،آتشِ زیر پا،امبر بیل،بازگشت، مردِ بریشم، سامانِ وجود، ایک دن، پروا، موم کی گلیاں،لگن اپنی اپنی،تماثیل،فٹ پاتھ کی گھاس، دوسرا دروازہ،ناقابلِ ذکر، کچھ اور نہیں،اور حاصل گھاٹ۔شامل ہیں۔
بانو قدسیہ کو ان کے ناول راجہ گدھ سے بہت پزیرائی ملی۔جو 1981میں شائع ہوا اور اردو ادب کے بڑے ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔بانو قدسیہ کو اپنے افسانہ توبہ شکن سے بھی راجہ گدھ کی طرح خوب پزیرائی ملی۔
راجہ گدھ کی تخلیق کے بارے میں بانو آپا کہتی ہیں، ان دنوں ہمارے گھر میں ایک امریکن لڑکا ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ امریکن تہذیب، امریکن زندگی، امریکن اندازِ زیست سب کے بارے میں یہ ثابت کرے کہ وہ ہم سے بہتر ہے۔ مسلمانوں سے بہتر ہے۔ تو ایک روز وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا: اچھا مجھے دو لفظوں میں، ایک جملے میں بتائیے، آپ صرف چھوٹی سی بات مجھ سے کیجیے کے اسلام کا ایسنس (جوہر) کیا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ عیسائیت کا ایسنس کیا ہے؟ اس نے کہا: عیسائیت کا ایسنسن ہے محبت ۔ 
بانو قدسیہ کہتی ہیں میں نے اس پر اسے کہا کہ اسلام کا جوہر اخوت ہے، برابری اور بھائی چارہ ہے۔وہ کہنے لگا، چھوڑیے یہ کسی مذہب نے نہیں بتایا کہ برابری ہونی چاہیے۔ یہ تو کوئی جوہر نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا۔ بانو آپا پھر کہتی ہیں،ہمارے گھر میں ایک بہت بڑا درخت ہوتا تھا سندری کا درخت جس سے سارنگی بنتی ہے۔ اس کے بڑے بڑے پتے تھے وہ ایک دم سفید ہو گیا اور اس پر مجھے یوں لگا جیسے لکھا ہوا آیا ہو: اسلام کا جو ہر’’حرام و حلال’’ہے۔ چنانچہ میں نے اس امریکی لڑکے کو بلایا اور کہا کہ یاد رکھنا اسلام حرام و حلال کی تمیز دیتا ہے اور یہی اس کا جوہر ہے۔ بانو قدسیہ کا کہنا ہے کہ اس کے بعد میں نے یہ کتاب لکھی اور میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کس طرح اللہ نے میری رہنمائی کی اور میری مدد فرمائی اور مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ کتاب میں نے نہیں لکھی مجھ سے کسی نے لکھوائی ہے۔
راجہ گدھ،بانو قدسیہ کا مشہور ترین ناول جسے بلاشبہ اردو کا عظیم ترین ناول سمجھنا چاہیے۔ بانوآپا نے اس ناول کے ذریعے حلال و حرام کے تصور کو ایک نئے معنی دیے ہیں کہ یہ کس طرح انسان کی آنے والی نسلوں میں جینیاتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔
جدید اردو ناول میں پہلی نوعیت کے جن چونکا دینے والے ناول نگاروں نے نمایاں اورمعیاری کام کیا،ان کے نام اورنگارشات کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔اشفاق احمد کاناول گڈریا،بانوقدسیہ کا راجاگدھ،قدرت اللہ شہاب کا، یا خدا،ممتاز مفتی کا الکھ نگری،جمیلہ ہاشمی کادشت سوس وغیرہ شامل ہیں۔
یہ وہ ناول ہیں،جن کے ماخذات اسلامی فکروفلسفے سے لیے گئے۔ان ادیبوں نے بالواسطہ یا بالاواسطہ مذہبی پہلو کوذہن میں رکھ کر یہ ناول لکھے۔
رحیم گل کاناول جنت کی تلاش بھی روحانی تجربات پر مبنی ہے۔ عبد اللہ حسین کے ناول’’قید‘‘میں قدامت پرست اورروشن خیال کرداروں کے درمیان مکالمہ ہوتا دکھایا گیا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’’راکھ‘‘میں بھی ایک دو مقامات پر کچھ اسلامی نکتے قلم بند ہوئے ہیں۔اسی طرح کچھ غیر مسلم ادیبوں نے بھی اسلامی فکر کو دیگر مذاہب کے ساتھ تقابل کرکے ناول میں ڈھالاہے۔ان میں سب سے مقبول ناول نگارمنشی پریم چند ہیں،جنہوں نے ’’میدان عمل‘‘جیسا ناول لکھا۔اس میں دین اسلام اورہندومذہب کے مابین کرداروں کے ذریعے گفتگو ہوتی دکھائی گئی ہے۔
بانو آپا کا راجہ گدھ یا ان کی دیگر تصانیف جیسا کہ میں نے پہلے کہا جب اشفاق احمد کی سوچ سے ہم آہنگ ہوئیں تو ان کے اس اسلوب میں بتدریج تبدیلی آتی چلی گئی جو اشفاق احمد کے عقد میں آنے سے پہلے تھی۔بانو آپا کی تحریروں میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہونے لگا،ان کی آخری مطبوعہ تحریر حاصل گھاٹ اس کی نمایاں مثال ہے۔
آج چار فروری 2017 ہے،میں خالی خالی نظروں سے کتاب میلے کے دروازے کی جانب دیکھ رہا تھا کہ ابھی بانو آپا اپنی وہیل چیئر پر بیٹھی سامنے سے آتی نظر آئیں گی،میرے پاس روکیں گی اور کہیں گی تمہاری کتاب پسند آئی لیکن اتنی سادہ تحریر نا لکھا کرو،بہت جلد سمجھ میں آ جاتی ہے اور جلدی ختم ہو جاتی ہے۔لیکن وہ نہیں آئیں،وہ ایسی جگہ چلی گئیں جہاں سے کوئی کبھی واپس نہیں آتا۔

 

 

 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE