Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

رضا صدیقی 

محمد حمید شاہد کے پچاس افسانے

بلوچستان میں قیمتی معدنیات کے ذخائر اور لا تعداد ایسے خزانے ہیں جو انسانی عقل سے بالاتر ہیں۔ اسی لئے بلوچستان میں عالمی ریشہ دوانیاں جاری ہیں۔ بلوچستان میں احساس محرومی پیدا کیا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان سے علیحدگی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور ایسی کچھ آوازیں بیرون ملک پہنچیں تو پاکستان سے دوستی کے علمبردار امریکی کانگرس اور ایوان نمائندگان میں بلوچستان کے حوالے سے قراردادیں پیش کی گئیں ۔
امریکی کانگرس میں جاری ایسی سرگرمیوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کا تعلق پاکستان کے ایک انتہائی حساس معاملے سے ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں اور ارباب اختیار کو بلوچستان کے معاملے کو جلد از جلد پرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے اور بلوچستان کے عوام کی محرومیوں پر چاہے وہ سیاسی ہوں یا معاشی یا سماجی ، فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
بلوچستان کی اس صورتحال نے ہمیں محمد حمید شاہد کے افسانے ۔برشور ۔کی یاد دلا دی۔ برشور ،بلوچستان کی سرزمین کے پس منظر میں لکھا گیا ایک مکمل شہ پارہ ہے جوغربت کے ہاتھوں انسان کی تذلیل، بے توقیری اور عورت کی بے بسی کی تصویر ہے۔ انسان حالات کی چکی میں پستے پستے بھربھرے آٹے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اس صورت حال کا عمدہ بیان اس افسانے میں موجود ہے۔
بلوچستان کے دیہی علاقوں کی غربت اور وہاں آباد لوگوں کی تصویر کشی کرکے محمد حمید شاہد نے افسانے میں ایک ایسے عنصر کا اضافہ کیا ہے جو بہت کمیاب ہے۔یہ نیا اور دلسوز موضوع ہے۔ بلوچستان کی خشک سالی کی علامت کے پس منظر میں بلوچستان کے موجودہ سلگتے ہوئے حالات کی پیش بینی محمد حمید شاہد جیسا صاحب اسلوب، صاحب ادراک قلمکار ہی کر سکتا ہے۔
محمد حمید شاہد کے پہلے افسانوی مجموعے کی پہلی کہانی۔ برف کا گھونسلا۔ میں چڑیا کی موت سے پیش کردہ تاثر نے کہانی کو اعلی معیار عطا کیا ہے۔ اس کہانی نے اس دور میں جنم لیا جب افغانستان میں روس کو پسپائی ہوئی اور امریکہ نے اپنے اتحادی پاکستان کی طرف سے آنکھیں پھیر لی تھیں بلکہ اس کی امداد بھی بند کر دی تھی۔برف کا گھونسلا پرندوں اور انسانوں پر مشتمل دو کنبوں کی کہانی ہے جو ایک ہی گھر میں رہتے ہیں لیکن ان کی تقدیر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ محمد حمید شاہد نے حقیقت نگاری سے کام لیا ہے لیکن کہانی علامتوں کے ذریعے بیان کی ہے۔کہانی مراعات یافتہ اور مظلوم طبقوں کو ایک تمثیلی انداز میں پیش کرتی ہے۔ایک طبقے کے استحصال اور وقت گذرنے کے بعد اس بہلاوے کے سامان کو یکسر بھلا دینے والے مکروہ کھیل کو سفاکی سے سامنے لاتی ہے۔ چڑیا اور اس کے بچوں پر جو گذرتی ہے وہ بہت سے انسانی خاندانوں پر بھی گذرتی رہتی ہے۔ کہانی کا دردناک انجام قاری کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
محمد حمید شاہد کے افسانوں کے موضوعات کی وسعت و تنوع، اسلوب کی رنگا رنگی نے انہیں نا صرف اپنے ہم عصروں سے جدا کیا ہے بلکہ ایک منفرد مقام بھی دلایا ہے۔
گہرے اور تیز مشاہدے نے ان کی کہانیوں میں عہد حاضر کی معاشرتی، ثقافتی اور تہذیبی زندگی کے نقوش کا بھرپور ابلاغ کرایا ہے۔
محمد حمید شاہدصرفٖ کہانی کار نہیں ہیں بلکہ انہوں نے کہانی کی دنیا پر خود کو ایک نقاد کی طرح مسلط کیا ہوا ہے۔ وہ اپنی کہانی کا ایک نقاد کی مانند خود تجزیہ کرتے ہیں، اپنے اندر کہانی کو پکاتے ہیں اور پھر قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں ،نپے تلے انداز میں۔اس سلسلے میں وہ خود کہتے ہیں کہ میں پورے افسانے کو اپنے اندر بننے دیتا ہوں پھر اس کو جزئیات سمیت کاغذ پر منتقل کرتا ہوں۔ اس طرح کہانی کا تصور اور ٹریٹمنٹ ایک ساتھ ان کے ہاں وارد ہوتا ہے۔منظرنامہ محمد حمید شاہد کے ہاں اتنے بھرپور انداز میں سامنے آتا ہے کہ قاری اس میں کھو جاتا ہے اور خود کو منظرنامے کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔
ارض وطن پرنائین الیون کے واقعے نے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ محمد حمید شاہد نے نائین الیون کے پس منظر میں کئی افسانے تحریر کئے ہیں۔ لوتھ ۔کے عنوان سے لکھا جانے والا افسانہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جسے ہندوستان میں اردو ادب کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ محمد حمید شاہد کا شاہکار افسانہ۔ سورگ میں سور۔ہے جسے بجا طور پردیہی معاشرت کے مشاہدے، مخصوص الفاظ،اصطلاحات کو علامتی مفاہیم کے ساتھ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ سعادت حسن منٹو،راجندر سنگھ بیدی اور انتظار حسین کے اسی ماحول میں لکھے گئے افسانوں کے مقابلے میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ کہانی میں سوروں کی آمد، کتوں کی بہتات، بکریوں کی اموات اور مونگ پھلی کی کاشت جیسی علامات استعمال کر کے عالمی استعمار کی مکروہ سازش سے پردہ اٹھایا گیاہے۔ محمد حمید شاہد نے اس افسانے میں بھرپور جزئیات نگاری سے کام لیا ہے۔ بنجرزمینوں کی ثقافت، وہاں کے معاملات، بکریوں کی اقسام اور ان کی بیماریوں کی تفصیلات ان کی دیہی زندگی سے قربت کا پتہ دیتے ہیں۔
دیہی علاقے میں جنم لینے والے محمد حمید شاہد کے دل و دماغ پر دیہات کا جو رنگ چڑھا اسے فیصل آبادکی زرعی یونیورسٹی کے زرعی ماحول نے اسے دو آتشہ کر دیایہی وجہ ہے کہ محمد حمید شاہد کی افسانہ نگاری سے مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نہیں نکل سکی۔
 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE