Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

 رضا صدیقی    

زاہدہ حنا کی کہانیاں

افسانہ نگار کی قوت متخیلہ، ماضی ،حال اور مستقبل کی سہ جہتی تصویر کشی کے لئے تحقیق و تفتیش کا سہارا لیتے ہوئے کسی ماہر مصور کی طرح کردار، ماحول اور کیفیت سازی سے جو تحریر جنم لیتی ہے وہ ناقابل فراموش کہانی ہوتی ہے۔اسی سوچ کے زیر اثر ارسطو نے اڑھائی ہزار سال پہلے فکشن کو تاریخ پر ترجیح دی تھی کہ تاریخ نگاری میں چیزوں کو من و عن پیش کر دیا جاتا ہے جبکہ افسانہ نگاری روداد نگاری نہیں بلکہ ہمہ جہتی ہےزاہدہ حنا نے یورپ کے ناول نگاروں کی طرح تاریخ کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔انہوں نے ایسے کرداروں کے گرد کہانیوں کا تانا بانا بنا ہے جن کے ہونے کا سراغ تاریخ اور علم البشر کے ذریعے ملتا ہے۔ زاہدہ حنا تاریخی کرداروں کو اپنی کہانی آگے بڑھانے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ ان کی کہانیاں ۔رقصِ مقابر ۔ اور ۔ زیتون کی ایک شاخ۔ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ دوسری جانب معاشرے کی تلخ حقیقتیں بھی ان کی کہانیوں کا حصہ ہیں۔ ایسی کہانیوں میں بیانیہ انداز میں علامت کا استعمال کہانی کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔
زاہدہ حنا کی کہانی رقص مقابر افغانستان کے پس منظر میں لکھی گئی ایک خوبصورت کہانی ہے۔ وہاں کی تباہ کاریوں کی داستان فلیش بیک اور فاسٹ فارورڈ تکنیک میں لکھی گئی ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کی داستان کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ کہانی کا توازن برقرار ہے۔ افغانستان میں قبرستانوں سے انسانی ہڈیاں نکال کر بچوں کی زبانی جب وہ کہتی ہیں کہ ہڈیاں لے لو، نان دے دو، نان دے دو ہڈیاں لے لو۔ تو تصور میں جو تصویر سامنے آتی ہے اس سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔کہانی میں آگے پیچھے کے سفر سے قاری کو الجھن نہیں ہوتی۔ کہانی سنانے کا پرانا انداز نا صرف برقرار رہتا ہے بلکہ یہ مکالماتی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ان کا یہ عمل قاری کو یادوں، ماحول اور کیفیات سے گذار دیتا ہے جو گذری ہوئی زندگی کے مشاہداتی تصور نے زاہدہ حنا کی یاد داشت میں محفوظ کر دیا ہے۔
ان کی کہانی ۔ زیتوں کی شاخ ۔تقسیم ہند اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان میں آ کر آباد ہونے والے مسلمان اب بھی مہاجر ہونے کے احساس سے نہیں نکل سکے۔زاہدہ حنا بھی اسی کیفیت سے گذری ہیں ان کے ہاں یہ جذبہ زیادہ شدت سے سامنے آیا ہے۔زیتون کی شاخ میں وہ لکھتی ہیں ۔
’’تمہارے نام کے ساتھ کوہن لگا ہے، تم یہودی ہو اور تم نے سینکڑوں برس ہجرت کا عذاب سہا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ تم ان فلسطینیوں کا دکھ نہیں سمجھتے جنہیں اپنے گھروں سے نکلنا پڑا اور  ہمارے عذاب بھی نہیں سمجھ سکتے۔ ہم کہ پہلے برٹش کی قومیت تو رکھتے تھے اور اب پاکستان میں مہاجر ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں ہیں۔ تمہیں پرمیاہ جیسا نوحہ گر ملا تھا لیکن ہمیں تو کوئی پرمیاہ بھی میسر نہیں آیا۔‘‘اسی طرح ان کا ناولٹ ۔نہ جنوں رہا نہ پری رہی۔بھی اسی تناظر میں لکھی گئی طویل کہانی ہے جس میں ہجرت، رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ،اقدار کی تبدیلی اوراس کے نتیجے میں دو نسلوں کے دکھ کو بیان کیا گیا ہے۔انکی کہانی ۔ تتلیاں پکڑنے والی ۔ تاریخ جغرافیہ سے ہٹ کر نیا ذائقہ لئے ہوئے ہے
معاشرتی مسائل کے تلخ حقائق پر مبنی کہانیاں کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ لئے سامنے آتی ہیں۔ ان کہا نیوں کی اثرانگیزی خون کے آنسو رلا دیتی ہے۔ نسائی شعور پر مبنی کہانیاں جن میں روایت اور مذہب کی آڑ  عورت کے استحصال کو اجاگر کیا گیا ہے اس کی بہترین مثال ان کی شاہ بانو کیس پر لکھی ہوئی کہانی ہے۔
زاہدہ حنا کی کہانی ۔ بود و نبود کا آشوب ۔جگ بیتی سے زیادہ آپ بیتی محسوس ہوتی ہے اور ایک صاحب طرز قلم کار کا یہی کمال ہوتا ہے کہ اس کی تحریر پڑھنے یا سننے کے بعد قاری محسوس کرے کہ یہ تو گویا میرے دل میں تھا۔زاہدہ حنا کی کہانیوں کی سب سے بڑی خصوصیت کردار سازی اور ماحول سازی ہے۔ تحقیق کی گہرائی ان کی کہانیوں کے پس منظر کو اجاگر کرنے میں معاونت کرتی ہے۔ ان کی کہانیوں میں پایا جانے والا دکھ ان کی ذات کا دکھ نہیں اجتماعی دکھ ہے۔انہوں نے اپنے دکھ کو اجتماعی دکھ میں مدغم کر دیا ہے۔
ایک بات قابل غور ہے کہ ان کی کہانیوں میں پیش کی گئی تحقیق کے مطابق اس خطے کی تہذیب کی بنیاد زرتشتی تہذیب پر ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ زرتشتی تہذیب سے خاصی متاثر ہیں اور اپنی کہانیوں کے ذریعے اس کا اظہار بھی کیا ہے۔یہ ایک ایسا سوال ہے جو مستقبل میں سوچ کی نئی راہیں کھولے گا۔

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE