Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 
امجد اسلام امجد
 
کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے

سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں

پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کو

اگر چہ گفتگو مبہم نہیں ہے

سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل

طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے

یہ بستی ہے ستم پر ور دگاں کی

یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے

کنارا دوسرا دریا کا جیسے

وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے

دلوں کی روشنی بجھنے نہ دینا

وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے

میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں

کوئی اس زخم کا مرحم نہیں ہے

جو کوئی سن سکے امجد تو دنیا

بجز اک بازگشتِ غم نہیں ہے

 

امجد اسلام امجد

کہاں آکے رکنے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا ، اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ ، جو نہیں ملا اسے بھول جا

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

دلِ بے خبر مری بات سن اسے بھول جا ، اسے بھول جا

میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں ، ترِی آس ، تیرے گمان میں

صبا کہ گئی مرے کان میں ، میرے ساتھ آ ، اسے بھول جا

کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم ، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم

تجھے زندگی نے بھلا دیا ، تو بھی مسکرا ، اسے بھول جا

کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں ، کسی آستیں پہ لہو نہیں

کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا ، اسے بھول جا

کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں ، غمِ زندگی کے فشار میں

وہ جو درد تھا ترے بخت میں ، سو وہ ہو گیا ، اسے بھول جا

نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی ، ، نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا

دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا ، اسے بھول جا

یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا ، اسے دیکھ ، اس پہ یقیں نہ کر

نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئنہ ، اسے بھول جا

جو بساطِ جاں ہی الٹ گیا ، وہ جو راستے سے پلٹ گیا

اسے روکنے سے حصول کیا ، اسے مت بلا ، اسے بھول جا

تو یہ کس لئے شبِ ہجر کے اسے ہر ستارے میں دیکھنا

وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم ، کوئی اور تھا ، اسے بھول جا

تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ، ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو

وہ تھا اک دریا وصال کا ، سو اتر گیا اسے بھول جا

 

 

Ghazal
 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE