|
دبئی میں ایک بھرپور ادبی نشست
۔صبیحہ
صبا
ایک چپ کھائے گئی ہے مجھ کو آگہی ڈھائے گئی ہے مجھ کو میرے ادراک کی مجبوری سے بات بہلائے گئی ہے مجھ کو عبدالستار شیفتہ بڑے سلیقے سے دیتے رہے فریب مگر بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے رہے سید طالب حسین شاہ موقع اسے کوئی بھی ہوا نے نہیں دیا بجھنے مگر چراغ خدا نے نہیں دیا سحر تاب رومانی چل رہے تھے جس طرف ہم اس طرف رستہ نہیں تھا بات دل کی تھی دل سے ہو جاتی بیچ میں تم دماغ لے آئے حریم حیدر
اپنی باتوں کے حسیں پھول
کھلاتے رہنا اب ملے ہو تو یونہی ملتے ملاتے رہنا اپنا پیمان ِوفا یاد ہمیشہ رکھنا اب میرا کام نہیں یاد دلاتے رہنا تسنیم عابدی
ہم سے آشفتہ مزاجوں کا پتہ
پوچھتی ہے کتنے باقی ہیں دئیے روز ہوا پوچھتی ہے میکدے میں بڑے کم ظرف تھے پینے والے آنکھ کو ساغر و مینا کبھی ہونے نہ دیا مصدق لاکھانی :۔ میری اڑان ناپنے والوں سے یہ کہو میں آسماں کے وسط میں بے بال وپر بھی تھا یوں تو بہت ہوئی تری چوکھٹ کی گفتگو لیکن خطا معاف وہاں میرا سر بھی تھا صغیر جعفری پھر وہی حاصل سفر نکلا جس پہ پہنچا وہ تیرا در نکلا ہائے وہ دن کہ دھوپ اوڑھی تھی پھر کہاں چھاؤں میں یہ سر نکلا صبیحہ صبا دل میں خاموش سا بیٹھا ہے خزانوں کی طرح گونجتا ہے کوئی معبد میں اذانوں کی طرح خیر کی فصل اگا کر اسے پکنے کے لئے اک توکل پہ میں چھوڑوں ہوں کسانوں کی طرح محبوب اختر غوری نے رضوان ممتاز اورشاعروں کا شکریہ ادا کیا اور اردو کے لئے اپنی خدمات کا تذکرہ کیا اورممتازشعراء کے بے شمار اشعار سنائے۔رضوان ممتاز نے اس تقریب ِپذیرائی پر میزبان کا شکریہ ادا کیا
|