ممتاز افسانہ نگار فرحت پروین
تحریر۔صبیحہ صبا
کہانیوں نے شاید بہت شور مچایا ہوگا کہ ہمیں لکھو تو فرحت نے
مجبوراً قلم اٹھایا ہوگا۔باہر کے شور تو کیا ہلکی سی آہٹ پر بھی یہ
نیک بی بی چونک جاتی ہے۔لیکن اپنے اندر کی آوازوں کو دبانے اور
چھپانے میں اسے خاص مہارت حاصل ہے ایک طرح سے یہ اچھا ہوا کہ
کہانیاں اندر اندر پکتی رہیں،پھر جو یہ پکی پکائی کہانیاں سامنے
آئیں تو سب داد دینے پر مجبور ہو گئے۔سب نے اپنے اپنے انداز میں
داد دی لیکن جب میں نے ادبی حلقوں میں یہ سنا کہ قراتہ العین حیدر
کے بعد ایک بڑی توانا آواز ابھری ہے تو مجھے بہت اچھا لگاکہ ہم
دونوں ایک دوسرے کو بیسٹ فرینڈ کے رتبے پر فائز کر چکے ہیں۔پہلی
بار یہ انکشاف تو فرحت نے ہی کیا تھا کہ صبیحہ تم بالکل میرے جیسی
ہوتو میں نے اس کی بے شمار خوبیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فوراَاس
کی رائے سے اتفاق کر لیا۔ہم دونوں کی یہ بھی ایک جیسی عادت ہے کہ
ہم بہت زیادہ بحث میں نہیں پڑتے۔بھلا میں اس کی رائے سے اتفاق کیوں
نہ کروں فرحت تو اتنی بڑی افسانہ نگار ہے جب میں اس کے افسانے
پڑھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے وہ اپنے کرداروں کی رگ رگ سے واقف ہے
منظر نگاری میں باکمال۔ایک افسانہ نگار کی آنکھ دور تک دیکھ سکتی
ہے۔اس سلسلے میں فرحت کی نظر بہت تیز ہے یا شاید اس نے کوئی جدید
اسکیننگ سسٹم اپنے دماغ میں فٹ کرالیا ہے ۔ملکوں ملکوں گھومتی
پھرتی ہے بہت کم ملک ہونگے جہاں تک یہ نہ پہنچی ہو۔پڑھنا لکھنا ایک
لکھنے والے کے بہت کام آتا ہے روزانہ دیر تک پڑھنا فرحت کے مزاج کا
حصہ ہے اس لئے لفظ بھی اس سے بہت محبت کرتے ہیں۔اس کے لکھنے میں جو
قرینہ اور سلیقہ ہے وہ لاجواب ہے۔برسوں پہلے وہ مجھے امریکہ کے ایک
مشاعرے میں ملی تھی۔یونہی بس سرسری سی ملاقات۔لیکن اس کے افسانوں
کے ذریعے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ یہ ایک بہت اچھی بات ہے ہم اہل قلم
ایک دوسرے سے نہ بھی ملے ہو ں لیکن ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیںاور
ہمارا ایک قلم قبیلہ ساری دنیا میں موجود ہوتاہے۔خیر فرحت سے دوسری
ملاقات بحرین میں ہوئی تو میں اسے پہچان نہ سکی۔پہچان کے سلسلے میں
میری یادداشت ۔۔۔سبحان اللہ خیر یہ اپنی کمزوریاں بتانے کا مناسب
موقع نہیں بلکہ اپنی کمزوریاں اور خامیاںبتانے کا کوئی موقع بھی
مناسب نہیں ہوتااس کے بعد وہ لاہور میں ملی دبستانِ بیاض نے ایک
شام صبیحہ صبا کے نام کا اہتمام کر رکھاتھا اور فرحت پروین وہاں
اپنا جدیددماغی اسکیننگ سسٹم آن کر کے موجود تھی ان کے دماغی سسٹم
نے میرے بارے میںبہت اچھی رپورٹ دی۔اور بس ہم دونوںکی دوستی پکی
ہوگئی۔فوراً اس نے میرے لئے ایک شام منانے کا اہتمام کیا اور مختصر
وقت میں لاہور میں موجودبیشتر اہل قلم کو جیم خانہ کلب میں جمع کر
لیا ۔اس کے بعد وہ جشنِ یوسفی میں میری دعوت پر امریکہ سے دبئی
آئی۔یونہی ملکوں ملکوں گھومتے ہوئے لوگوں سے ملتے ہوئے کسی تجربے
میں مجھ سے یہ شعر لکھا گیا
مسافر ہیں اور اک خانہ بدوشی ہے
مقدر میں
سر راہے کہیں مل کر سمندر پار
ملتے ہیں
پھر میں نے اور صغیر جعفری نے اردومنزل کے زیر اہتمام دبئی میں
جشنِ فرحت منعقد کیا۔جس کی گونج اب تک باقی ہے میں حیران ہوں کہ
کوئی پروگرام کب تک گونج سکتا ہے مگر یہ فرحت کی شخصیت کا اعجاز
ہے۔مجھے لگتا ہے فرحت کا وجود محبت کی مٹی سے گندھا ہے وہ سادگی کو
پسند کرتی ہے اور خود بھی بہت سادہ فطرت ہے۔ادبی برادری میں اس کا
نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے فرحت ساحل پر بیٹھ کر لہریں نہیں
گنتی ۔بلکہ وہ گہرے پانیوں میں اتر کر دیکھتی ہے کہ کتنی گہرائی
میں جا کر انسانی سانسیں رکنے لگتی ہیں۔اس کی کہانیوںکے کرداروں کی
اصل زندگی میں ان کی آنکھوں سے جتنے آنسو بہتے ہیںاس سے زیادہ آنسو
فرحت کی آنکھوں سے بہتے ہیں وہ انسانی نفسیات کو بہت اچھی طرح
جانتی ہے۔اس کا مشاہدہ حیران کر دیتا ہے۔وہ اپنی کہانی میںایک جگہ
لکھتی ہے۔۔۔،،جب سے اماں نے قوت گویائی کھوئی تھی۔تب سے ان کی
آنکھیں بہت بولنے لگیں تھیں وہ سارے شکوے شکایتیں جو انہوں نے بے
حسی اور سردمہری کی تہوںمیں چھپا رکھیںتھیں،ان کی آنکھیں اتنی
فصاحت و بلاغت سے بیان کرتیں کہ میں تو میں ساتھ کھڑے ہوئے لوگ بھی
سمجھ جاتے،،۔ فرحت کہتی ہیں،، کہانیاں لکھنا میرے لئے سانس لینے
جیسا خود کار اور غیر اختیاری عمل ہے میں چلتی پھرتی اپنے روزمرہ
کے کام انجام دیتی رہتی ہوں اور دماغ میں افسانہ چلتا
رہتاہے،،بظاہر ہنستی کھیلتی گپیں لگاتی فرحت کتنا درد مند دل رکھتی
ہے۔اس کی تحریر میں دیکھئے وہ کیا سوچتی ہے،،انسانی نفسیات کے
علاوہ معاشی ناہمواری، طبقاتی تفریق،انسانی حقوق کا استحصال،مفلس
اور زردار کے مابین بڑھتا ہوا فاصلہ مجھے دکھی کرتا ہے۔کوئی بھی
حساس اور صاحب دل نہ ان مسائل سے چشم پوشی کر سکتا ہے اور نہ ہی اس
نظام کا حصہ ہونے سے خود کو بری کر سکتا ہے اس لئے یہ مسائل کثرت
سے میری کہانیوں کا موضوع بنے ہیں۔میں نے پوری دیانت داری سے ان کے
تاریک گوشوں کو بے نقاب کیا ہے اور خود احتسابی سے بھی اجتناب نہیں
کیا۔لیکن میرا اس سے بھی گہرا دکھ بلکہ روح کا زخم ، مٹتی روایات
ٹوٹتی اقدار،روبہ زوال اخلاقی معیارہیں۔انٹر نیٹ اور موبائل کے
فیوض و برکات سے مستفید ہوتی ہوئی ،تن آسان،بے صبر اور جلد باز،
اپنی کمزوری اور ناکامی کی ذمہ داری حالات پر ڈالتی ہوئی نئی نسل
ہماری قوم کا مستقبل ہے۔یقیناًان میں اچھے محنتی اور سنجیدہ لوگ
بھی ہونگے لیکن بات اکثریت کی ہو رہی ہے۔،، فرحت اپنی فکر انگیز
تحریروں سے لوگوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی لانا چاہتی ہیںایک طرف ان
کے رفاحی کام ہیں تو دوسری طرف ادب کے لئے احمد ندیم قاسمی ایوارڈ
کی بانی ڈائریکٹر ہیں انھوں نے یہ ایوارڈ قاسمی صاحب کی زندگی میں
ہی جاری کر دیا تھاجو ہرسال ادیبوں شاعروں اور نقادوں کو ان کی
کتابوں پر دیا جاتا ہے۔ یوںانسانی ہمدردی قول و فعل کی یکسانیت
فرحت پروین کی شخصیت کی نمایاں خصو صیات ہیں |