|
فرزانہ سحاب مرزا میں جل پری تھی اور سمندر میں قید تھی تہہ دار پانیوں کے کسی گھر میں قید تھی بے ساختہ کسی نے پکارا مجھے مگر خود ساختہ غموں کے مقدر میں قید تھی مجھ کو محبتوں سے رہائی نہ مل سکی خوشبو تھی اورپھول کےپیکر میں قید تھی سب کی نگاہ میں تھی جو ناقابل شکست وہ مورتی بنی کسی پتھر میں قید تھی دلکش غزل کبھی تو کبھی گیت بن گئی کس کس ادا سے رنگ سخنور میں قید تھی آزاد ہو سکی نہ کسی دور میں سحاب تصویر بن گئی کسی پتھر میں قید تھی |