|
حریم حید ر قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے رات دن کی جانب سرک رہی ہے رات بجھ گیا دن سیاہ نگری کا شام گذری ، چمک رہی ہے رات میری تنہائیوں کے رستے میں ہمسفر صبح تک رہی ہے رات چاند تاروں کی نقرئی محفل کس خموشی سے تک رہی ہے رات دل ادھر آفتاب کا ڈوبا اس طرف پھر دھڑک رہی ہے رات لے کے آغوش میں سمندر کو ساحلوں پر لُپک رہی ہے رات ہلکی بارش میں یوں لگا جیسے اپنی زلفیں جھٹک رہی ہے رات دیکھ کر صبح کی سپیدی کو اپنی پلکیں جھپک رہی ہے رات آج کی شب ہوئے ہیں وہ مہمان آج کتنی مہک رہی ہے رات بات کوئی نہ کھل کے ہو پائی ان سے کتنی جھجھک رہی ہے رات اب تو سوجا حریم جانے دے لوریاں دے کے تھک رہی ہے رات |