Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

اسحاق ساجد

ہم پہ پھینکے گئے ہر سمت سے پتھر کتنے
ہم سے پہلے بھی یہاں زخمی ہوئے سر کتنے
خُون میں ڈُوبے ہیں اس راہ میں آ کر کتنے
جل گئے آتشِ بارود میں پیکر کتنے
وہی ذلت ہے وہی کُفر وہی وحشی پن
دے گئے درسِ عمل یُوں تو پیمبر کتنے
تھے فقط دِل کی جگہ سینوں میں پتھر جن کے
ان درِندوں نے اُجاڑے ہیں بھرے گھر کتنے
کیا عجب گھر سے میں نکلوں تو نہ واپس آؤں
بھر دیئے دِل میں دھماکوں نے میرے ڈر کتنے

چاندنی جن کا تبسم تھا بدن جن کے گلاب
خاک میں مل گئے یاں حُسن کے پیکر کتنے

لعل و گوہر کی تمناّ میں گئی ہیں جانیں
قلزمِ غم میں ہوئے غرق شناور کتنے

تشنگی بجھ نہ سکی پھر بھی ہماری ساجد

ریگِ صحر ا میں تھے ، کہنے کو سمندر کتنے

......................

چشمِ نم سے ٹپک گئے آنسو

ہنستے ہنستے چھلک گئے آنسو

ان کو آنا تھا میری پلکوں تک

راستے میں بھٹک گئے آنسو

درد روشن ہوا اندھیرے میں

دو گھڑی میں چمک گئے آنسو

اس نے بس اک نگاہ ڈالی تھی

جانے کیسے چمک گئے آسو

عزم پختہ ضرور تھا لیکن

پیش منزل بہک گئے آنسو

رونے والوں کے سامنےساجد

اپنا دامن جھٹک گئے آنسو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی   بھر     رہا گماں شاید

ہے کوئی   ہم   پہ مہرباں شاید

عکس دھندلے دکھائی دیتے ہیں

آج آنکھوں میں ہے دھواں شاید

صاف دھڑکن سنائی دیتی ہے

ہے یہی خوف کا سماں شاید

آگ بڑھنے لگی ہے سورج کی

آ گیا   سر   پہ   امتحاں شاید

وقت ٹھہرا ہوا ہے مدت سے

ہے کوئی محوِ داستاں شاید

اب نہ محفل میں تیری آئے گا

کوئی ساجد سا خوش بیاں شاید

اسحاق ساجد

 جرمنی

کون با  دیدہِ  تر  یاد  آیا

آج پردیس میں گھر یاد آیا

یاد ہے گاؤں کا خونی منظر

کنبہ پھر خون میں تر یاد آیا

دیکھا اس کو جو لیے تیرو کماں

یک بیگ  دردِ جگر  یاد  آیا

کیسے لیتا تھا دل و ہ قبضے میں

اُس کے ہنسنے کا ہنر یاد آیا

ملنے آتا تھا جو سب سے چھپ کر

اب  باندازِ دگر   یاد   آیا

دیکھ کر ہاتھ میں اُس کے پتھر

جانے کیوں اپنا ہی سر یاد آیا

آج مہجور وطن کو ساجد

بھولے خوابوں کا نگر یاد آیا

 اسحاق ساجد

 ( جرمنی)

ایسا ہی ربط ہے میرا جان جہاں کے ساتھ

جیسا کہ رشتہ تیر کا ہے جسم و جاں کے ساتھ

لو آگئے وہ سامنے تیروکماں کے ساتھ

لو میں بھی ڈٹ گیا ہُوں دِل ناتواں کے ساتھ

ہو چاند کا جہاں کہ ہو حوروں کی سر زمیں

ان کا کبھی نہ ربط رہا بے گماں کے ساتھ

اُف ! خواب ہو کے رہ گئے وہ دن شباب کے

اِک چاند کتنا خوش تھا کبھی کہکشاں کے ساتھ

ان لوگوں پر بھی ہو کوئی معقول تبصرہ

دھرتی پہ ہو کے رہتے ہیں جو آسماں کے ساتھ

خوشیوں میں سب کو کرتا ہوں شامل مگر جناب

رہتا ہوں میں اکیلا ہی دردِ نہاں کے ساتھ

ساجد  وہ میری سوچ میں بھی ناچتے ہیں یوں

جیسے کہ رقص میں ہو ہوا بادباں کے ساتھ

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE