|
ماجد صدیقی معاملہ ہی رہائی کا اس بیاں پر تھا مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا مثال ریگ ہوا نے اسے بکھر دیا جو لختِ ابرکبھی اپنے گلستاں پر تھا یہ کربِ عجز تو ماتھا ہی جانتا ہے مرا گہر مراد کا کس کس کے آستاں پر تھا ثمر تو تھے ہی مگرسنگ بھی تھے شاخوں پر وہ جن کا بوجھ مسلسل شجر کی جاں پر تھا نشیب خاک سے کیا اس کی پیروی کرتے مقدمہ ہی ہماراجب آسماںپر تھا لٹے بھی گر تو زباں پر نہ ہم کبھی لاتے وہ اتہام کہ ہر دور میں خزاں پر تھا بھلا سکے نہ وہ پل اس کے قرب کا ماجد جب اپنا ہاتھ اندھیرے میں پر نیاں پر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکاری کو کیا کیا ہیں کرتوت ہوئے ریشم کے لچھے بھی دیکھو توت ہوئے خواب ہوئیں پریاں جو ایقان کی تھیں واہمے کیا کیا اپنی خاطربھوت ہوئے رہتے ہیں محصور مسلسل ہلچل میں امیدوں کے شہر بھی ہیں بیروت ہوئے جب سے باغ میں رسم چلی پیوندوں کی سیدھے سادے توت بھی ہیں شہتوت ہوئے منکر ہونے پر ماجد بدنام ہمی جبر سہا تو ہم اچھوں کے پوت ہوئے |