|
ناصر علی سید انتظار کا لمحہ رت جگوں سے باندھا ہے سانس کا سرا ہم نے واہموں سے باندھا ہے اپنی سب دعاؤں کو لکھ دیا ہے ساحل پر اور ٹوٹی کشتی کو پانیوں سے باندھا ہے خواب کے جزیروں میں بے اماں ہواؤں نے کج ادا چراغوں کو وحشتوں سے باندھا ہے مضطرب سے لمحوں میں ہم نے دل کی ٹہنی پر ایک ذرد سا پتہ اٹکوں سے باندھا ہے جبر ہے یہ موسم کاہم نے ان دنوں ناصر یار کی گلی جانافرصتوں سے باندھا ہے |