|
رخسانہ نور خواب کو پانی بنا کر لے گیا ہے کیا کروں وہ مری نیند یں اڑا کر لے گیا ہے کیا کروں وہ جو میٹھی نیند کی مانند آیا تھا کبھی میرے سپنے ہی اڑا کر لے گیا ہے کیا کروں بہتے اشکوں کو تو پلو چاہیے تھا پیار کا وہ تو دامن بھی چھڑاکرلے گیا ہے کیا کروں اب عیاں ہونے لگے ہیںبے کلی کے دائرے رنگ چہرے کے اڑا کر لے گیا ہے کیا کروں میرے سارے خط جلا کر راکھ اس نے کر دئیے اپنی تحریریں اٹھا کر لے گیا ہے کیا کروں ہمیں بھی محبت میں رونا پڑا کہ کانٹوں کے بستر پہ سوناپڑا جسے آئینہ مان رکھا تھا دل نے اسے آج بے عکس ہونا پڑا تمہیں ریزہ ریزہ سمیٹا تھا لیکن ہتھیلی کو خوں میں ڈبونا پڑا ہری ہو سکے درد کھیتی تری پھر ہمیں لاتعلق سا ہونا پڑا سر عام جب لے ہی آئے ہو قصّے مجھے زہر میں لب بھگونا پڑا جوآنکھوں میں تھا نورموتی کی صورت زمانے کی خاطر وہ کھونا پڑا |