|
شہزاد نیر جب بھی چپکے سے نکلنے کا ارادہ باندھا مجھ کو حالات نے پہلے سے زیادہ باندھا چلتے پھرتے اسے بندش کا گماں تک نہ رہے اس نے انسان کو اس درجہ کشادہ باندھا کتنی بھی تیز ہوئی حرص وہوس کی بارش ہم نے اک تارِ توکل سے لبادہ باندھا یک بیک جلوہء تازہ نے قدم روک لئے میں نے جس آّن پلٹنے کا ارادہ باندھا اس نے دل باندھ کے اک آن میں بازی جیتی ہم تو سمجھے تھے فقط ایک پیادہ باندھا سادگی حسن کی شعروں میں بیاں کرنی تھی لفظ آسان چنے مصرعہء سادہ باندھا |