|
سلطان صبردانی میرے لہجے میں ہے اب تک وہی نشتر موجود ہے مری ذات کے اندر کوئی خود سر موجود لہر در لہر مری پیاس مرے ساتھ چلی اور مرے ساتھ رہا ایک سمندر موجود گردشِ دیر کا سورج بھی مرے ساتھ چلا ایک سایہ بھی مرے سر پہ برابر موجود کوئی بھی اپنے خد و خال نہ پہچان سکا گرچہ آئینہ بھی بستی میں ہے گھر گھر موجود میری تدبیر عجب صورتِ احوال میں تھی میرے ہی ہاتھ سے لکھا تھا مقدر موجود یہ وہی لفظ ہیں جو باعث آزار بنے انہی لفظوں میں رہا پیار کا پیکر موجود میں اسے سوچ رہا تھا جسے دیکھا بھی نہیں اس کا یہ دعویٰ کہ ہے میرے ہی اندر موجود |