Urdu Manzil


Forum

Directory

Overseas Pakistani

 

چودھواں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ
اور عظیم الشان سالانہ عالمی مشاعرہ


 دوحہ قطر کی عالمی شہرت یافتہ ادبی تنظیم ’’مجلس فروغِ اُردو ادب‘‘ کی جانب سے دوحہ شیراٹن ہوٹل کے المجلس آڈیٹوریم میں مورخہ 3جون 2010ء بروز جمعرات ، (14) چودھویں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ اور سالانہ عالمی مشاعرہ 2010ء کی تقریبات منعقد ہوئیں ، جن میں ہندوستان ، پاکستان ، کینیڈا اور قطر کے مقامی شعرائے کرام نے شرکت فرمائی۔
 وزارتِ ثقافت و فنون و تراث قطر کے وکیل برائے امورِ مشترکہ جناب علی بن مبارک الخلیفی ، جو عزت مآب وزیرِ ثقافت و فنون وتراث ڈاکٹر حمد عبد العزیز الکواری (جو اپنی گوناگوں سرکاری مشغولیات کی بنا پر تشریف نہ لا سکے تھے کی نمائندگی فرما رہے تھے، پاکستانی سفیر برائے دولتِ قطر عزت مآب جناب محمد اصغر آفریدی ، ہندوستانی قائم مقام سفیر برائے دولتِ قطر عزت مآب جناب سنجیو کوہلی اور جناب محمد عتیق ، چیئرمین مجلس فروغِ اُردو ادب نے  چودھواں عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ پاکستان سے اِس انعام کے حقدار جناب مسعود مفتی اور ہندوستان سے اس ایوارڈ کے لیے منتخب شخصیت جناب رتن سنگھ کو ان کی تاحیات زبانِ اُردو (جو جنوبی اور وسطی ایشیا کے کروڑوں انسانوں کی زبان ہے) اورادبِ اُردو کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں پیش کیا۔ )سے تاحال تواتر اور تسلسل کے ساتھ ہر سال ایک ہندوستانی اور ایک پاکستانی ادیب کی خدمت میں پیش کیا جانے والا یہ ’’عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ‘‘ دونوں انعام یافتگان کے لیے الگ الگ خالص طلائی تمغے اور ڈیڑھ لاکھ روپئے نقد مالیت پر مشتمل ہوتا ہے۔
 ایوارڈ کا فیصلہ (دونوں ملکوں میں) دو معزز و معتبر مکمل طور پر غیر وابستہ سینئر اہلِ قلم پر مشتمل جیوریز نے کیا، جس کا اعلان جنوری  میں لاہور (پاکستان) میں منعقدہ جیوری کے اجلاس میں صدرِ جیوری عالمی شہرت یافتہ ادیب و مزاح نگار جناب مشتاق احمد خاں یوسفی اور دہلی (ہندوستان) میں فروری میں منعقدہ جیوری کے اجلاس میں صدرِ جیوری جناب گوپی چند نارنگ (چیئرمین ساہتیہ اکادمی نئی دہلی) نے کیا۔
 تقریبِ تقسیم ایوارڈاور سالانہ عظیم الشان عالمی مشاعرے کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا جس کی سعادت جناب عبد الرحمن فرید ندوی نے حاصل کی۔ مجلس کے پروگرام مینیجر جناب شوکت علی ناز نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ جناب فرقان احمد پراچہ نے اردو اور انگریزی میں پروگرام کی ابتدائی نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مجلسِ انتظامیہ کے رکن جناب جاوید ہمایوں نے شعرائے کرام اور اُردو اسکالرز کا اسٹیج پر استقبال کیا۔ جناب عبد الرحمن فرید ندوی نے مجلس کے اغراض و مقاصد ، عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈز اور مجلس کے سالانہ عالمی مشاعروں کے تناظر میں عربی زبان میں ایک بلیغ خطاب کیا جس میں بطورِ خاص مجلس کے انتہائی محسن اور معاونِ خصوصی عزت مآب جناب ڈاکٹر حمد عبد العزیز الکواری وزیرِ ثقافت وفنون و تراث ، دولتِ قطر کا شکریہ ادا کیا۔مجلس کی سرپرست کمیٹی کے رکن جناب محمد صبیح بخاری نے عالمی شہرت یافتہ آرٹسٹ جناب ایم ۔ ایف حسین (جناب مقبول فداحسین ، جن کو حال ہی میں حکومتِ قطر نے قطری نیشنلٹی سے نوازا ہے) کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔ موصوف آج کی اِس پُروقار تقریب کے خصوصی مہمان تھے۔ جناب سید فہیم الدین نے دونوں انعام یافتگان کا تعارف پیش کیا۔
 جناب محمد عتیق (چیئرمین مجلس فروغِ اُردو ادب) نے دونوں ایوارڈ یافتگان کو بھرپور مبارکباد دیتے ہوئے عزت مآب وزیرِ ثقافت وفنون وتراث کا خصوصی شکریہ ادا کیا، جن کے تعاونِ خاص سے مجلس کو اپنی تقریبات کے انعقادمیںہر قسم کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ :۔
 ’’ہمیں یہ اعلان کرتے ہوئے نہایت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ہم اپنے ایوارڈ کی تقریب اورآج کے اِس عالمی مشاعرے کے پروگرام کو وزارتِ ثقافت و فنون و تراث کی الدوحۃ عاصمۃ الثقافۃ العربیۃ  کی سرگرمیوں کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں اور دوحہ  کے لیے عرب کلچر کا کیپٹل تسلیم کیے جانے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔نیز یہ بات بھی بڑے فخر و مسرت کی ہے کہ   دوحہ کو عرب کلچر کا کیپٹل تسلیم کر لیا گیا ہے‘‘۔
 جناب محمد عتیق صاحب نے اپنے استقبالیہ کلمات میں بانی مجلس ملک مصیب الرحمن (مرحوم) کی ہر دلعزیز شخصیت ، اُن کے عزم و استقلال اور ان کی لازوال خدمات کو بھی عقیدت ومحبت کے بیش بہا نذرانے پیش کیے۔
 وزارتِ ثقافت وفنون و تراث قطر کے وکیل برائے امورِ مشترکہ جناب علی بن مبارک الخلیفی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ، عزت مآب وزیرِ ثقافت و فنون وتراث ڈاکٹرحمد عبد العزیز الکواری کی جانب سے (جو اپنی گوناگوں سرکاری مشغولیتوں کی بنا پر تشریف نہ لاسکے تھے) ایوارڈ یافتگان کی خدمت میں بھر پور مبارکباد پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ ہمارے یہ مہمان شعراء وادباء اور اُردو اسکالرز قطر کے اہم تاریخی مقامات ، مثلاً ’’متحف الفن الاسلامی‘‘ اور ’’سوق واقف‘‘ کا ضرور معائنہ کریں گے۔
 اِسی کے ساتھ پروگرام کا پہلا دور ختم ہوا اور یہاں سے اُس عظیم الشان عالمی مشاعرے کا آغاز ہوا 
دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے
 اور جسے سننے کے لیے قطر کے کونے کونے سے شائقینِ ادب کشاں کشاں مشاعرہ گاہ میں پروانہ وار جمع ہو رہے تھے۔ جن کی مجموعی تعدادتخمیناً ہزار سے متجاوز تھی۔ اِس عظیم الشان عالمی مشاعرے میں ہندوستان ، پاکستان ، کینیڈا اور قطر کے شعرائے کرام نے شرکت فرمائی۔ مشاعرے کی صدارت سینئر شاعر جناب گلزارؔ دہلوی نے کی ، جبکہ مشاعرے کی باقاعدہ نظامت کے فرائض پاکستانی شاعر جناب عزم بہزاد نے اداکیے، جنہوں نے اپنی خوبصورت نظامت کے ذریعہ سامعین کو مشاعرے سے ایسا ہم آہنگ اور مربو ط رکھا کہ آخری شاعرکے پڑھنے تک ہال ویسا ہی بھرا ہوا تھا جیسا کہ آغازِ مشاعرہ کے وقت تھا۔ ڈھائی بجے شب تک جاری رہنے والے اِس عظیم الشان عالمی مشاعرے میں شروع سے آخر تک پورا ہال سامعین کی تالیوں اور واہ واہ ، داد و تحسین ،آفریں آفریں اور بہت خوب بہت خوب جیسے الفاظ سے گونجتا رہا۔
 پاکستان سے جناب عزم بہزاد ، امجد اسلام امجد ، عطائ الحق قاسمی ، محمد اسلم کولسری ، ڈاکٹر انعام الحق جاوید ، مرزا عاصی اختر اورمحترمہ صائمہ علی نے شرکت کی ،جبکہ ہندوستان سے جناب گلزار دہلوی ، ڈاکٹر ماجد دیوبندی ، عازم گرویندر سنگھ کوہلی ، جوہر کانپوری اور سید محمد طالب خوندمیری نے مشاعرے میں حصہ لیا۔
 کینیڈا سے جناب تقی عابدی اور قطر سے جناب اعجازحیدر اور عتیق انظر نے مشاعرے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
 اِس پُروقار تقریب میں ایوارڈیافتگان کے ادبی شہ پاروں اور مشاعرے میں حصہ لینے والے شعرائے کرام کی نمایاں تخلیقات پر مشتمل ایک ادبی مجلہ کا اجراء بھی عمل میں آیا، جو سامعین کے درمیان بڑی تعداد میں مفت تقسیم کیا گیا۔
منتخب اشعارعالمی مشاعرہ ء
اعجازحیدر :
بدن روح سے اجنبی ہو گیا ہے
بدیشی کمائی مجھے کھا گئی ہے
یہ دہشت بھری جنگ ہے جانے کس کی
مگر یہ لڑائی مجھے کھا گئی ہے
عتیق انظر:
تری مرضی نہیں پھر بھی چلوں گا
اندھیری رات کو روشن رکھوں گا
تری پھونکوں سے میں بجھ بھی گیا تو
ترے چہرے پہ کالک پوت دوں گا
مرزا عاصی اختر :
ہمسائی کو سلام جو کل میں نے کر دیا
خدمت میں پیش ہو گئی ابا حضور کی
ابا نے کر دیا مرا چٹ منگنی پٹ بیاہ
اتنی بڑی سزا ہے ذرا سے قصور کی
جوہر کانپوری :
جو نمک پاشی کے فن میں ہر طرف مشہور تھے
میرے زخموں نے انہیں لوگوں سے مرہم لے لیا
اُس سے لینا ہی نہیں آتا تجھے تو کیا کریں
لینے والے نے تو صحرا میں بھی زم زم لے لیا
صائمہ علی:
تم کو تو قتل بھی جائز ہو بنامِ غیرت
میں اگر شعر بھی کہہ دوں تو بغاوت ٹھہرے
عازم کوہلی:
روح سے روح کے رشتے میں کشش ہو ایسی
تیرے لب پہ ہو دعا مجھ پہ اثر ہو جائے
اُڑتے اُڑتے جو خبر آئے ترے آنے کی
تیری خوشبو سے معطر یہ نگر ہو جائے
ماجد دیوبندی:
نہ کچھ زیادہ نہ کچھ کم ترے حوالے سے
وہی ہے درد کا عالم ترے حوالے سے
کھلے جو زخم کے ٹانکے تو یوں ہوا محسوس
صبا نے رکھ دیا مرہم ترے حوالے سے
طالبخوند میری :
ہم اتنے صاف ستھرے ہو چکے ہیں
کہ سچ کا داغ دل سے دھو چکے ہیں
ہماری جیبِ جاں میں تھا جو کل تک
وہ سکہ بھی کہیں ہم کھو چکے ہیں
ڈاکٹر انعام الحق جاوید :
ہجر اے سی نہیں ہے ، ہیٹر ہے
وصل کشمیر کا سویٹر ہے
حُسن تیرا اگر ہے اَن ٹچ تو
عشق میرا بھی زیرو میٹر ہے
تقی عابدی:
حسن کہتے ہیں کسے ؟ حسن کہاں رہتا ہے ؟
حسن کیوں عشق کے پہلو میں جواں رہتا ہے
حسن سے دیکھو تو ہر چیز حسیں ہوتی ہے
حسن سے ہٹ کے ہر اِک چیز اثر کھوتی ہے
حسن احساس میں ہوتا ہے جوانی میں نہیں
نشہ ہے خون میں ، انگور کے پانی میں نہیں
اسلم کولسری:
سورج سرِ مژگاں ہے اندھیرے نہیںجاتے
ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے
تو جانبِ ظلماتِ عدم چل دیا تنہا
بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے
جناب ایم ایف حسین نے ایک خوب صورت نظم ہندوستانی کلچر او رعرب میں گزرے حالات پر مشتمل سنائی۔
رتن سنگھ نے چند دوہے سنائے:
میرے تن میں موجزن پانچوں ہی اجزاء
پنج آب کا میں ہوں جایا من میں بسے خدا
ڈنک سہیں اور شہد دیں سارے بن کے پھول
رتی تو بھی کر کبھی ایسی میٹھی بھول
عطا الحق قاسمی:
کوئی چھوٹا یہاں کوئی بڑا ہے
خداوندا ! یہ کیسا سلسلہ ہے
محبت ہو گئی ہے زندگی سے
ہمیں جینا بہت مہنگا پڑا ہے
امجد اسلام امجد:
حد سے حد ، حدِّ گماں تک کوئی جا سکتا ہے
ڈھونڈنے اس کو کہاں تک کوئی جا سکتا ہے
مرتبہ میرا یہی ہے کہ زمیں زاد ہوں میں
سو وہاں ہوں کہ جہاں تک کوئی جا سکتا ہے
گلزار دہلوی:
بد مست وہ الھڑ سی کنواری پلکیں
راتوں کی جگی نیند سے بھاری پلکیں
اُن کی پلکوں پہ جس وقت سے ڈالی ہے نظر
جھپکی نہیں واللہ ہماری پلکیں

 رپورٹ: شوکت علی ناز دوحہ۔قطر

 

 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE