عاصی
کرنالی
آیئے
ایک ایسے دشت کا تصور کریں جس میں تنہائی ہو،ویرانی ہو،سنّاٹا ہو۔
جہاں سورج آسمان کی بجائے زمین سے نکلتا ہو۔جہاں ذرّہ ذرّہ کسی بے
مہر موسم کی بے مروّت دوپہر میں آگ کا جہنم اُگل رہا ہو۔ جس دشت
میں بادِ سموم ہو۔ رات کے متحرک ٹیلے ہوں۔چیختی ہوئی اور چنگھاڑتی
ہوئی بلائیں غولِ بیابانی کی طرح بھاگتی دوڑتی پھر رہی ہوں۔ جہاں
کوئی سمت نہ ہو، کوئی انجامِ سفر نہ ہو،کوئی منزل نہ ہو اور اس دشتِ
ہول ناک کی بیکراں وسعتوں اور غیر محدود مسافتوں میں ایک تنہا
مسافرسفر کررہا ہو۔ اُس مسافر کا بدن زخم زخم ہو، دل لہو لہو۔پاؤں
کانٹوں سے فگارہوں۔ جسم اس جہنمِ آتشیں کی شعلہ باریوں میں جھلس
رہا ہو لیکن وہ مسافر ایک ایسے عزم اور ایک ایسی اُمید کی بشارتوں
سے معمور ہو، جن بشارتوں میں،موسمِ خزاں کے دامن کی سطح پر پھول
سجانے کا حوصلہ ہو۔ جو مسافر سراب کی رگیں نچوڑ کر دریا بہا دینے
اور سورج کی کرنیں کشید کرکے بارشیں برسا دینے کی ہمّت رکھتا ہو جو
موسمِ خزاں کو گل طراز اور سمن فشاں بنا سکتا ہو اور جو دشتِ ہول
کو چمنِ آسودگی میں بدل دینے کی توفیق سے مشرف ہو۔ آپ نے جس دشت کا
تصور کیا ہے اُس کے مسافر کانام ایوب خاورہے اور اُس کی توفیقات ،عزائم
،اُمیدوں اور بشارتوں کا نام گلِ موسمِ خزاں ہے۔ موسمِ خزاں کا لفظ
اُس کی زندگی کی محرومیوں کی علامت ہے اور گُل اِن محرومیوں کی خاک
سے امکانات کے پھول کھلانے کا استعارہ ہے۔
ایوب
خاورکی پوری شاعری اُس کے آنسوؤں میں بھیگی ہوئی ہے۔ اُس کے شجرِ
تخلیق کی ہر شاخ اُس کے دلِ زخم زخم سے سلگ رہی ہے۔ اُس کی تخلیق
کو پوری فضا اُس کہر میں لپٹی ہوئی ہے جو اُس کی نارسا آہوں کے
بطون سے ابھری اور چار اطراف میں پھیل گئی ہے لیکن اُسے ماحول کو
بدل ڈالنے کا ہنر آتا ہے۔ وہ آنسوؤں سے تبسّم طلوع کرنے، کہر سے
روشنی ظہور کرنے اور زخموں سے پھول اُجالنے کی صفات سے مالا مال ہے۔
جب وہ
کہتا ہے۔
سفر
ہے دشت کا اور سر پہ رختِ تنہائی
یہ
بار بھی اسی عمرِ رواں کو ڈھونا ہے
تو
بارڈھونے کا عزم گویا محرومی کے تناظر میں احکامات کا سراغ لگانے
کی آرزو ہے۔جب یہ شعر اُس کی نوکِ قلم پر آتا ہے۔
جلتے
سورج کے سایے میں خاور
کٹ ہی
جائے گا یہ سفر تنہا
توہمیں کٹ ہی جائے گا یہ سفر کے آئینے میں ایوب خاورکے عزم کا
تمتماتا چہرہ نظر آتا ہے اور پھر جلتے سورج کو سایہ قرار دینا اُس
کے حوصلے کا پر توبن کر سامنے آتا ہے۔
یا
پھر۔ ۔ ۔
تھکن
نے پاؤں میں کانٹے بچھادیئے خاور
مگر
یہ دھوپ سفر،بے تکان میں نے کیا
تھکن
پاؤں میں کانٹے بچھاتی ہے لیکن مسافر اسی تھکن میں بے تکان دھوپ
سفر کرتا ہے
وہ
کہتا ہے۔
کاری
ہے جو انفرادیت اورامتیاز کا شرف لیے ہوئے ہے۔ اُس کے اسلوب میں
استعارہ، رمزیت اور نظم وغزل کے جدید مطالبات کے فن اور معنوی
محاسن موجود ہیں۔ وہ لفظ کے در کھول کر معانی کے نئے نئے عجائب
خانوں تک ہمیں لے جاتا ہے اور خلیق امکانات کو اُن فضاؤں میں ہمیں
اُڑالے جاتا ہے جہاں ہم ناپیدہ اور نادیدہ جہانوں کی سیر کرتے ہیں
لیکن ان بیکراں زمان ومکاں بلکہ لازماں اور لامکاں کی مسافتوں کے
باوجود وہ اپنا اور ہمارا رشتہ زمین سے استوار رکھتا ہے۔
میری
نظر میں ایوب خاور تخلیقی احکامات کی اُس سطح پر ہے کہ اُس نے گلِ
موسمِ خزاں میں جس جس افق کا چہرہ ہمیں دکھلایا ہے اُن سے کہیں
زیادہ افق اُس کی نگاہوں کے سامنے بے حجاب ہیں اوروہ ایک ایک کرکے
ان سب کے منور چہرے ہمیں دکھانے کا عزم رکھتا ہے۔ |