اردومنزل
کے زیر اہتمام دبئی میں انٹرنیشنل ادبی تقریب کا انعقاد
سید اظہار حیدر اممتا
زدانشور ،سماجی شخصیت،تعلیمی اداروں کے بانی ،انجنیئر اور شاعر کی
اعلیٰ
خدمات کا اعتراف
تقریب کے دو دور ہوئے پہلے دور میں سید اظہار حیدرکو
خراج تحسین پیش کیا
دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا
پاکستان سے آئی ہوئی نامور
شاعرہ ڈاکٹرصغرا صدف نے صدارت کی
امریکہ سے آئے ہوئے معروف شاعر ڈاکٹر امان اللہ خان تقریب میں مہمان خصوصی
تھے
تحریر صبیحہ صبا
صبیحہ صبا اورسید صغیر جعفری نے اردومنزل کے زیر
اہتمام دبئی میں ایک ادبی تقریب کا اہتمام کیا۔جس کا مقصد سید اظہار حیدر
مرحوم کی کمیونٹی کے لئے اعلیٰ خدمات پر انہیںخراج تحسین پیش کرنا تھااسی
لئے ان کے دوستوں رشتے داروں،احباب ،مداحوں شاعروں اور ادیبوں دانشوروں کو
ایک جگہ جمع کیا تاکہ ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔تقریب کے دو دور ہوئے
پہلے دورمیں سید اظہار حیدر کی شخصیت پرمضامین پڑھے گئے دوسرے دور کا
مشاعرہ بھی پہلے دور کا تسلسل تھا کیونکہ اظہار صاحب نے علم و ادب کی
آبیاری میں عمر گذار دی۔صبیحہ صبا اور صغیر جعفری نے سید اظہار حیدر کوخراج
تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سید اظہار حیدر ایک خوش قسمت انسان تھے جوایک
بڑے انسان کی حیثیت سے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔دوسروں کے کام آنا ان کے مزاج
کا حصہ تھا اس لئے ہر فرد نے ان کے دکھ کو محسوس کیااسی لئے بجا تو پر کہا
جا سکتا ہے کہ
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
سید اظہار حیدر اپنی ذات میں انجمن تھے اورایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے
سید اظہار حیدر کو اگر ہم ان کے عمل کے آئینے میں دیکھیںتوان کی زندگی
عوامی خدمت اور فلاحی کاموں سے بھری پڑی ہے۔مختلف شعبوں میں انہوں نے فلاحی
کام کئے لیکن تعلیمی میدان میں ان کی خدمات بہت نمایاںہیںنامور سماجی شخصیت
انجینئر علم و ادب اور پاکستان کے شیدائی ،اسکولوں کے بانی ،تقریبات کے
منتظم دوستوںکے دوست ممتاز شاعر 23 دسمبر 2009کو ابوظبی کے اسپتال میں وفات
پاگئے ۔ پاکستانی کمیو نٹی کے لئے اظہار حیدر کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔
مرحوم تقریباً چالیس قبل بحیثیت انجینئر ابوظبی آئے اور یہاں کی بلدیہ میں
مختلف عہدوں پر فائز رہتے ہوئے اہم خدمات انجام دیں ۔انھوں نے مرکز پاکستان
اور پاکستانی اسکول کے حصول میں دیگر اہم شخصیات کے ساتھ مل کر نمایاں
خدمات انجام دیں ۔ ابوظبی میں کرکٹ کے فروغ اور دور دراز علاقوں میں
پاکستانیوں کے لئے تعلیم کے فروغ کی جدو جہد کرتے رہے۔اظہار حیدر کا تعلق
ایک ممتاز علمی گھرانے سے تھا اسی شوق کو اظہارحیدر ساری زندگی لے کر چلے
غریب اور نادار بچوں کی فیسوں کا بندوبست کرتے رہے مصفحٰ اسکول کے لئے زمین
کا حصول اوراسے تعمیر کرنے کے لئے جد وجہد کرتے رہے ان کی فلاحی خدمات کو
بھی بھلایا نہیں جاسکتاکئی فلاحی تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا۔ آپ نے ملازمت
کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں بھر پورحصہ لیا۔اظہار حیدر بعد میں
آنے والے انجینئر زکی رہنمائی کرتے رہے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے میں پیش
پیش رہے اظہار حیدر بحیثیت انسان اور دوست ایک بہترین شخصیت تھے ان کے
دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا ۔ ابو ظبی میں ان کا ایک بڑا کارنامہ مینا
بازار تھا جو کئی سالوں تک لوگوں میں مقبول رہا دیگر ملکوںکے لوگ بھی مینا
بازار کا انتظار کرتے تھے۔مینابازار سے حاصل شدہ آمدنی سے پاکستانی اسکولوں
کی مدد کی جاتی تھی۔ابوظبی میںممتاز شاعر احمد ندیم قاسمی کے اعزاز میں
عالمی کانفرنس اور مشاعرہ کا اہتمام احباب کے ساتھ مل کر کیااظہار حیدر
صغیر احمد جعفری کے قریبی دوستوں میں سے تھے ۔اظہار حیدر کی ایک بڑی خوبی
یہ تھی کہ وہ ہر اچھے کام کی تعریف کرتے تھے اسی لئے ان کے دوستوں کا حلقہ
بہت وسیع تھا۔ابوظبی میں ان کے بھائی ڈاکٹر شکیل حیدراپنے خاندان کے ساتھ
مقیم ہیں ان کی صاحبزادی کراچی میں سرجن کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہیں
ان کے صاحبزادے امریکہ میں مقیم ہیں۔ شیخ محمد پرویز نے کہا اظہار حیدر
جیسی مہربان شخصیت کو سب جانتے اور پہچانتے تھے ،سید خورشید حسین ارشد
انجم،محمد شاہد نے کیمونٹی کے لئے اظہار حیدر کی تعلیمی ادبی اور سماجی
خدمات کی تعریف کی۔ سحرتاب رومانی اورمنظور کاف حسرت نے منظوم خراج تحسین
پیش کیا۔انجینئرجاوید مستقیم ابو ظبی سے تقریب میں شرکت کے لئے آئے اور
اظہار حیدر مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیاعرض محمد شیخ اور ان کی بیگم
ابوطبی سے سے آئے ، عرض محمد شیخ جو پیشے کے اعتبار سے انجینئرہیں ان کا
اظہار حیدر کا طویل ساتھ تھا انہوںنے کہا کہ اظہار معصوم اور سیدھا سچا
انسان تھا انھوں نے کئی واقعات سنائے۔جن سے پتہ چلتا تھا کہ سید اظہار حیدر
نے زندگی کو لوگوں کے لئے وقف کر رکھا ھا ان کے بنائے ہوئے اسکولوں سے
تعلیم حاصل کرنے والے طلبا اعلیٰ عہدوں تک پہنچ گئے تھے۔حافظ عظمت اور حافظ
زاہدعلی نے کہا اظہار حیدر صاحب جیسے لوگ اپنے کام کے ذریعے زندہ رہتے
ہیں۔نامور صحافی طاہر منیر طاہر نے اپنے خطاب میں کہا کہ بیس سال تک ان کی
آواز ریڈیو ابوظبی اردوسروس سے گونجتی رہی انہیں کیسے بھلایا جاسکتا
ہے۔ڈاکٹرزیبا افتخار نے کہا کہ وہ ایک مہربان شفیق اور ہمدرد انسان تھے
انھوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر کی حیثیت سے بھی میرا ان سے واسطہ پڑتا تھا وہ
اکثر غریب بچوں کو میرے پاس علاج کے لئے بھیجتے تھے ناہید نفیس جن کا فلاحی
کاموں کے سلسلے میں کافی نام ہے انہوں نے کہا اظہار صاحب ان تھک کام کرنے
والے انسان تھے ان میں کام کرنے کی اتنی توانائی تھی کہ کوئی دوسرا وہاں تک
نہیں پہنچ سکتا۔ وہ اپنی بیماری کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔طلعت زیدی
نے اپنے بیان میں کہا کہ اظہار حیدر صاحب کی جد و جہد کی کہانی طویل ہے
مختصر وقت میں بیان نہیں کیا جا سکتا،میاںمنیر ہانس چیئر مین ایجوکشن ایند
ویلفیئر کونسل یو اے ای نے اظہار حیدر صاحب کی بالمشافہ ملاقاتوں کا ذکر
کیا انھوں سید صغیر جعفری کی تعریف کی کہ وہ برسوں سے تقریبات منعقد کرارہے
ہیں ۔ سید اظہار حیدر کے قریبی دوستوں محمد نسیم الدین مرزا نے امریکہ حاحی
محمد اسحاق ، نصرت سعید ، ڈاکٹرہادی شاہد،طارق حسن،روی رامن ڈاکٹر قیصر
انیس ڈاکٹر طلعت محمود انجینئر ظفر اختر جمیل اسحاق اور چوہدری عاشق حسین
کے پیغامات سیدصغیر جعفری نے محفل میں پڑھ کر سنائے کہ اظہار حیدر
ملنسار،ہمدرد اور غم گسار شخصیت کے مالک تھے ممتاز شاعر اور دانشور ع س
مسلم نے تقریب میں شرکت کی ممتاز شاعرہ تسنیم عابدی نے تقریب میں پڑھنے کے
لئے ایک مضمون بھیجا جو اردو منزل میںشامل ہے ایک اقتباس پیش کرتی ہوں
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
اظہار صاحب پاکستانی کیمونٹی کے لئے ایک گھنے سایہ دار درخت تھے وہ اپنے
ایک شعر پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزار گئے
جن کا پیشہ شجر تراشی ہے
پیڑ ان کو بھی سایہ دیتے ہیں
وہ ان پاکستانیوں میں سے تھے جن کے جذبۂ تعمیر نے صحرا کو گلستان بنایا ۔اللہ
ان کو بہتریں جواررحمت میں جگہ دے
منظور ک حسرت نے اظہار حیدر کے لئے قطعات پیش کئے
تشنہ لبوں کے جام محبت سے بھر گئے
صحرا کو اپنی چاہ سے گلزار کر گئے
صد آفریں کہ اہل وطن کے مفاد میں
جو کچھ تھا ان کے بس مین وہ اظہار کرگئے
شوکت علی ناز نے دوہا قطر سے سید اظہار حیدر کے لئے نظم بھیجی دواشعار پیش
کئے جارہے ہیں
وہ جس کے دم سے تھا محفل میں اعتبار سخن
سخن گروں کو وہی سوگوار کرکے گیا
عجیب شخص تھا اپنے ہنر میںیکتا تھا
کہ خونِ دل سے چمن میں بہار کرکے گیا
شریف آفریدی جن کا تعلق پاکستان سوشل سنٹر شارجہ سے ہے اانھوں نے کہا اظہار
حیدر نے بے شمار فلاحی کام کئے یہی فلاحی کام ان کی آخرت میں فلاح کا باعث
بنے گے انھوں نے صبیحہ صبا اور صغیر احمد جعفری کی ادبی خدمات کو سراہا۔
سید اظہار حیدر کے بھانجے عباس زیدی اور بھانجی نگہت ماجد حسین نے اپنے
مقالے پڑھتے ہوئے کہا ہمیں فخر محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے خاندان کے ایک فرد
نے اتنی عزت اوروقار سے زندگی گزاری اور اتنے اچھے اچھے کام کئے اپنا
اورخاندان کا نام روشن کیا صبیحہ صبا اور صغیر جعفری نے یہ تقریب منعقد کر
کے ہم سب کے دل جیت لئے۔ امریکہ سے آئے ہوئے ڈاکٹر امان اللہ خان جو پیشے
کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں کینسر کے مرض میں ریسرچ اور علاج پر گران قدر خدمات
انجام دے چکے ہیں سابق صدر جارج بش کے مشیر رہ چکے ہیں۔پاکستانی قوم اور
پاکستان کے لئے بڑا درد رکھتے ہیں جو کہ ان کی پنجابی شاعری سے عیاں ہے
انھوں نے اظہار صاحب سے زندگی میں نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے
کہا کہ لوگ جس چاہت سے ان کا ذکر کر رہے ہیں یقینناً وہ اچھے انسان
ہونگے۔اچھے انسانوں کا جانا خلا پیدا کرتا ہے ڈاکٹر صغرا صدف کالم نگار
محقق کمپئر پی ٹی وی پنجاب ٹیکٹ بک بورڈ کی ممبر وجدان کی ایڈیٹرپاکستان سے
تشریف لائیں تھیں مشاعرے کی صدارت کر رہی تھیں انھوں نے اظہار حیدر کے بارے
میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جب کوئی فرد نیک مقصد کو آگے لے کر بڑھتا ہے تو
االلہ کی تائید اسے حاصل ہو جاتی ہے اس کی مثال سید اظہار حیدر ہیں دوسرے
دور میں شاعری پیش کی گئی حالانکہ رات کافی بھیگ چکی تھی چند گھنٹے بعد
لوگوں کو اپنی ڈیوٹی کے لئے جاناتھا مگر بڑی تعداد میں لوگ آخر تک موجود
رہے سب سے پہلے صبیحہ صبا نے کنول ملک کو دعوتِ سخن دی کنول ملک نے پہلی
بار کسی مشاعرے میں شرکت کی ان کی ایک کتاب شائع ہو چکی ہے اوردوسری زیر
ترتیب ہے ان کے دو اشعار
اب ہمارے درمیاں یہ فاصلے ہیں
اور بس
ایک ہم ہیں خاک ہے یہ راستے ہیں
اور بس
کانچ کی مانند بکھرے خواب ہیں
میرے کنول
ہاتھ میں ٹوٹے ہوئے سے آئینے
ہیں اور بس
نامورشاعر حریم حیدر دور سے آئے
تھے اور جلدی جانا چاہتے تھے اسلئے انہیں بلایا گیا
مری غزل میں ترا حسن کیا سمائے
گا
ہر ایک لفظ معنی سے منہ چھپائے
گا
نوجوان شاعر سلیمان جازب
اورطلعت زیدی نے خوبصور ت کلام پیش کیا ،
ارشد انجم ،حافط زاہدعلی،منظور
ک حسرت ،ڈاکٹرامان اللہ خان صغراصدف،امجداقبال امجد نے نے اردو کے ساتھ
پنجابی کلام بھی سنایا
سحرتاب رومانی
مجھ کو صرف دو ساعت اس نے زندگی
بخشی
اک دیا جلانے کی،اک دیا بجھانے
کی
منظور ک حسرت
کھلا در کو سدا رکھنا میں
اک دن لوٹ آؤں گا
مجھے ہے یادبچھڑا تھا وہ یہ کہہ
کے یہی کہہ کے
ہمیشہ خشک نظر آئیں ہیں وہ
آنکھیں تو
وہ میری آنکھ کے آنسو کہاں
چھپاتی ہے
سید صغیر جعفری
بڑھ کے صحراؤں کو گلزار
بنانے والے
الوداع کہتے ہیں ہم پیار سے
جانے والے
صبیحہ صبا
تمہیں کیا فکر ماں کی زندگی میں
کہ جب بے کل تمہارے جاگتے ہیں
آخر میں صدرمحفل ڈاکٹر صغرا صدف
سے بہت سا کلام سنا گیا،صبیحہ صبا نے تمام مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا
کیاجن کی موجودگی میں سید اظہار حیدر کی یادوں کو تازہ کیا گیا ان کے لئے
دعائے مغفرت کی گئی
تری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب
کے پھول
|