Urdu Manzil


Forum

Directory

Overseas Pakistani

 

 احمد خیال

چاروں طرف سے دشت کو رستہ نکلتا ہے
اس شہر کا جنون سے رشتہ نکلتا ہے
دن کو وہ آفتاب سے چھپتا ہے اور پھر
ٹھیک آدھی رات جسم سے سایہ نکلتا ہے

تاریخ دیکھیے تو فقط ایک کارواں
دریا کے آس پاس سے پیاسا نکلتا ہے
اک آدمی نے شیخ سے پوچھا تھا بار بار
دنیا و دیں کے بیچ سے ر ستہ نکلتا ہے ؟
جانے کب اپنے پاوں سہاریں گے اپنا بوجھ
جانے کب اپنے ہاتھ سے کا سہ نکلتا ہے
اک رت میں دشت ریت کی صورت اڑا پھرے
اک رت میں اپنی آنکھ سے دریا نکلتا ہے
صدیوں پرانی بات بھی بالکل نئی لگے
ہر بول اس زبان سے تازہ نکلتا ہے
بارش بھی کچھ تو زور سے پڑتی ہے اس گھڑی
کچھ پیرہن کا رنگ بھی کچا نکلتا ہے
کوئی بھی واقعہ جو مرے ساتھ پیش آئے
صدیوں پرانے عہد کا قصہ نکلتا ہے
لگتا ہے پوری قوم گدا گر تھی ا س طرف
کھودیں اگر زمین ، تو کاسہ نکلتا ہے
آتی ہے کھل کے نیند ،اگر اپنا دیس ہو
او ر پھر وہاں پہ سانس بھی پورا نکلتا

........................................


احمد خیال
میں وحشت و جنوں میں تماشا نہیں بنا
صحرا مرے وجو د کا حصہ نہیں بنا
اس بار کو زہ گر کی توجہ تھی اور سمت
ورنہ ہماری خاک سے کیا کیا نہیں بنا
سوئی ہوئی انا مرے آڑے رہی سدا
کوشش کے باوجود بھی کاسہ نہیں بنا
یہ بھی تری شکست نہیں ہے تو اور کیا
جیسا تو چاہتا تھا میں ویسا نہیں بنا
ورنہ ہم ایسے لوگ کہاں ٹھہرتے یہاں
ہم سے فلک کی سمت کا زینہ نہیں بنا
جتنے کمال رنگ تھے سارے لئے گئے
پھر بھی ترے جمال کا نقشہ نہیں بنا
روکا گیا ہے وقت سے پہلے ہی میرا چاک
 مجھ کو یہ لگ رہا ہے میں پور ا نہیں بنا


(احمد خیال)
غبا ر ابر بن گیا کمال کر دیا گیا
ہری بھری رتوں کو میری شال کر دیا گیا
قدم قدم پہ کاسہ لے کے زندگی تھی راہ میں
سو جو بھی اپنے پاس تھا نکال کر دیا گیا
میں زخم زخم ہو گیا، لہو وفا کو رو گیا
لڑائی چھڑ گئی تو مجھ کو ڈھال کر دیا گیا

گلا ب رت کی دیویاں نگر گلاب کر گئیں
میں سر خرو ہوا ، ا سے بھی لال کر دیا گیا
تو آ کے مجھ کو دیکھ تو غبار کے حصار میں
ترے فراق میں عجیب حال کر دیا گیا
وہ زہر ہے فضاوں میں کہ آدمی کی بات کیا
 ہوا کا سانس لینا بھی محال کر دیا گیا
 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE