|
اختر جمال جن کے ہونٹوں پہ ہمہ وقت دعا ہوتی ہے وہ فرشتے ہیں کہاں ان سے خطا ہوتی ہے ان فرشتوں سے کہو لوٹ کے گھر آجائیں شام کے وقت بڑی تیز ہوا ہوتی ہے چونک اٹھتی ہیں مری نیند سے بوجھل آنکھیں رات جب چاند ستاروں سے خفا ہوتی ہے ورنہ اک روز ترے شہر بھی آئے ہوتے ہم سے ہر بار وہی لغزش پا ہوتی ہے بند دروازے سبھی کھلتے ہیں اک اک کر کے زندگی خواب میں جب راہنما ہوتی ہے وہ جو آجائیں تو محفل میں بہار آجائے ان کے آنے میں ہی بس دیر ذرا ہوتی ہے ہم اسے ڈھونڈنے صحرا کی طرف جائیں گے سنتے آئے ہیں وہیں باد صبا ہوتی ہے دل کے ویرانے کاموسم نہیں کوئی اختر کبھی آہستہ کبھی تیز ہوا ہوتی ہے |