|
اشرف جاوید سخن آرا ہوا جب بھی سرِ دربار ندیم (احمد ندیم قاسمی کے لئے) حرف کب واقف اسرار تھے؟کب بولتے تھے مگر اس شخص کے چھونے کے سبب بولتے تھے رنگ یوں بھرتا چلا جاتا تھا تصویروں میں کیا خط وخال ،سن وسال عجب بولتے تھے پھر ستارے سے اتر آتے تھے قریہ قریہ زر افکارکے جگنو سرِشب بولتے تھے حسنِ لب بستہ کو اظہار کا یارا بھی نہ تھا زینتِ شہر جو عشاق تھے، سب بولتے تھے اک دھڑکتا ہوا دل رکھاپس سطرِ خیال شاخِ گفتار پہ دکھ درد غضب بولتے تھے مٹی اعجاز نما تھی کہ کمالِ فن تھا چاک در چاک پڑے کوزے بھی تب بولتے تھے ہم کلامی کا سلیقہ بھی سکھایا ،گر بھی روبہ رو ہوتے ہوئے آئینے کب بولتے تھے اک روایت تھی جو کردار سے نم پاتی تھی ایک معیار جنم لیتا جو لب بولتے تھے سخن آرا ہوا جب بھی سرِ دربار ندیم صف بہ صف خستہ ضمیروں کے نصب بولتے تھے
|