|
اشرف شاد ان سے ملا تو پھر میں کسی کا نہیں رہا اور جب بچھڑگیا تو خود اپنا نہیں رہا دیوار ٹوٹنے کا عجب سلسلہ چلا سایوں کے سر پہ اب کوئی سایہ نہیں رہا ہر اک مکان سے نام کی تختی اترگئی دل کی فصیل پہ کوئی پہرہ نہیں رہا رہبر بدل گئے کبھی رہزن بدل گئے اور ہم سفر بھی کوئی پرانا نہیں رہا اب اس کے حسن میں وہ کرشمے نہیں رہے تالی تو بج رہی ہے تماشہ نہیں رہا شاید پڑوس میں کہیں بجلی گری ہے آج دیکھو ہمارے گھر میں اندھیرا نہیں رہا دیمک لگی ہوئی ہے صلیبوں پہ شاد اب رسمِ جنوں نباہنے والا نہیں رہا |