جو | |
آصف ثاقب سوالی کو بھلا کب ٹالتا ہے کہ جو پتھر میں کیڑا پالتا ہے میرے آنسو اٹھا کر لے گیا وہ سنا ہے اس کے سکے ڈھالتا ہے میر ی تدفین تم آکر تو دیکھو پرندہ مجھ پہ مٹی ڈالتا ہے میرا سب حال روشن ہے خداپر وہ ہر سو دیکھتا ہے بھالتا ہے کسی نے آگ بھر دی ہے بدن میں میرے دل کو جلاتا بالتا ہے کڑی محنت کا خمیازہ ہےثاقب جو اپنا سارا جیون گالتا ہے |