|
عتیق الرحمن صفی نصرت زہرا
صنعتی ترقی نے ہمیں کچھ اسطرح
اپنے پنجوں میں جکڑ لیا ہے کہ معنی و مفاہیم کو ہی بدل کر رکھ دیاہے یہا ں
تک کہ ہم نے خود کو بھی مشین ہی سمجھنا شروع کردیا ہے ہمارا غمِ روزگار
ہمیں جہاں جہاں لئے جاتا ہے ہم روبوٹ کی طرح اسی رومیں بہہ رہے ہیں مگر صد
شکر کہ روزنِ سخن کے وسیلے نے ہماری سوچ اور فہم کو آلودہ ہو نے سے بچالیا
ہے اور اب بھی فرزانوں میں کچھ دیوانے باقی ہیں جو یہ شعور رکھتے ہیں کہ
معاشرے ،قومیں اور افراد کن معیارات پر زندہ رہا کرتے ہیںاور خوشی کی بات
یہ ہے کہ اردوشاعری اب بھی کلاسیکی روایتوں اور کھرے پن سے خالی نہیں کم از
کم عتیق الرحمن صفی کی شاعری کیلئے تو یہ دعویٰ با لکل درست ثابت ہو تا ہے
،ان کی شاعری میں وہی انگ زندہ و جاوید ہے جو ہماری تہذیبی روایتو ں کا
خاصہ ہے ، لہجے کی چاشنی اور شعورِ ذات سے پُر عتیق کی شاعری میں جو بات رہ
رہ کر اپنا اظہار کرتی ہے وہ موجودہ ، دور اور موجودہ دور کی شاعری میں نا
پید ہے اگر میں ایک جملے میں انکی شاعری کی اساس کو بیان کروں تو انہوں نے
ایک ہی شخص کو محبو ب بنائے رکھا ہے ، یوں کہ انکی تمام شاعری اسی محور کے
گِرد گھو متی ہے کہیں کہیں وہ صحرائے عرب میں پا پیادہ قیس کی تصویر محسوس
ہوتے ہیںجو موسموں کی سختیوں، طعنہ و دُشنام اور اپنے ہی خالی پن سے پُر ہے
مگر اس اُمید پر زندہ ہے کہ جانے والا ایک بار پلٹ کر اسے آواز دے گا تو اس
کا درد خود ہی مند مل ہو جا ئیگا اور یہی انتظار ان سے اپنا اظہار کروارہا
ہے بانہوں میں چہرے کو چھپائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں جانے کب وہ
آجائے اس آس پہ اکثر راتوں کو اُسکی روشن
تحریروں کے روشن لفظوں کی تاثیر ہے یہ ہر سمت یہ ایک دُہائی ہے سب کے ہمرہ چل پڑتا ہے یہ عشق نہیں رسوائی ہے سب کے ہمرہ چل پڑتا ہے
ایک شاعر کیلئے چھوٹے چھو ٹے
واقعات بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اسکی حسیاسیت ان واقعات کو بہت اہم
بنادیتی ہے ، چونکہ صفی کا تعلق پنجاب سے ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی کچھ نظموں
اور غزلوں میں اس رنگ کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کچے گھڑے پہ آئے گا تیرے بغیر کون
بچھڑے ہیں اور بھی ساتھ کئی یہاں
یہ صفی کے شعری سفر کی ابتداء
ہے اور ابھی انہیں بہت سے ا ن دیکھے جہانوں کو تسخیر کرنا ہے اور ان کی
اٹھان یہ بتاتی ہے کہ وہ ایک نہایت تابناک مستقبل رکھتے ہیں خدا ان کو قلم
کی حرمت قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین |