خواب
آمیزعالمِ بیداری
اخترحسین
جعفری
لاہور۔30/مارچ
1991ء
ایوب خاوراپنا شعری تجربہ خارج میں موجود معاشرتی تضادات اور شعورِ ذات کے
اُن مضافات سے کشید کرتا ہے جہاں آج کا انسان اپنے آپ کو اندرونی سطح پر
کئی حصوں میں بٹا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ مضافات وجود کی دوئی اور عدم اور
وجود کی باہم ستیزہ کاری کے مضافات ہیں تاہم فکر کی یہ عمیق رَو اور زندگی
کے بارے میں اس کا حکیمانہ طرزِ عمل اُسے اس شعری غنائیتPoetic Lyricismکے
قرب وجوار سے دور نہیں لے جاتا جو کسی بھی زبان کی شاعری کا ایک بنیادی
اوراہم جزو متصورہوتی ہے۔
عصری اعتبار سے ایوب خاورکسی دیو مالائی عہد کا متلاشی نہیں۔ وقت کی حیثیت
اُس کے شعری عمل میں ادکتاؤ پاز کی زبان میں ساعتِسیّارکی نہیں، ساعتِمطلق
کی ہے۔ عصر کا تصور اس کے ہاں اپنی کلیت میں ایک ایسے لمحے،ایک ایسے پَل کی
صورت میں ملتا ہے جہاں تمام ابتدائیں اور انتہا ئیں مل کر اُس کے لیے ایک
نئی شعری معنویت تخلیق کرنے کا سبب بنتی ہیں، جہاں صداقت اپنے وجود کی نفی
سے اپنا اثبات پیدا کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا خواب آمیز عالم بیداری ہے جہاں
انسان خوداپنا وجود ہو کہ ذات یا پھر اپنی کوئی تازہ لکھی ہوئی نظم خود
اپنے سوادِحیات میں رکھ کر بھول جاتا ہے۔یہ احساسِ خودفراموشی ،یابرونِ
وجود میں زندگی کو یاد رکھنے کا سلسلہ ایوب خاور کے ہاںملار مے کی تقلید
میں اردو نظم لکھنے والے ان شعرا سے یکسر مختلف ہے جن کی علامتیں محض ذاتی
اور اُردو شاعری کی مستند عمومی روایت سے منقطع ہونے کے ناتے ایک طرح کے
احساسِ تنہائی کا شکار نظر آتی ہیں۔
درونِ ذات کافساد ہوکہ خارج میں موجود کوئی عصری تضاد،ایوب خاور غیر ضروری
مرصع کاری سے اجتناب کرتے ہوئے ایک انقلابی نوعیت کی شعری
منطق(Syllogistics)کی بنیاد رکھتا ہے اور اپنے نوبہ نو موضوعات کے صغریٰ،
کبریٰ اور نتائج کی منطقی اشکال کو انتہائی فنی مہارت سے آشنا کرتا ہے اور
اس طرح نظمِ جدید کی اس عمارت کی تکمیل میں مصروف دکھائی دیتا ہے جس کے بام
ودَر سے گزرتی ہوئی تازہ ہَوا میں خود اُس کے اپنے انفاس کی رَوشامل ہے۔
|