Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

خودکلامی
ایوب خاور

پچھلے کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں اور اس وقت بھی بہت دیر سے قلم ہاتھ میں لیے اپنے آپ سے الجھ رہا ہوں۔ بات اپنے بارے میں کہنی ہو تو اپنے بارے میں کم بولنے والے بلکہ بہت ہی کم بولنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے جو اس وقت میرا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ہم جیسے لوگوں کے لیے ’’اظہارِذات‘‘ ہمیشہ ہی سے ایک مسئلہ رہا ہے۔ کیا کہنا ہے اور اسے کیسے کہنا ہے، کہنا بھی ہے کہ نہیں، اسی پیش و پس میں وقت کا بیش تر حصہ گزر جاتا ہے اور دل کی دل میں رہ جاتی ہے۔ ورنہ تو یار لوگ ایک ایک ہفتے میں پورے کے پورے شعری مجموعے بازار میں لے آتے ہیں، پتا نہیں کیسے بہ ہرحال یہ ان کا مسئلہ ہے۔

میرے اندر جو تخلیقی انسان ہے وہ بہت سارے ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے، میرے اندر کا شاعر اور ڈراما پروڈیوسر،ڈائریکٹرہرلمحہ ایک دوسرے سے گتھم گتھارہے ہیں،بیچ میں ایک محبت ہے جو ہر دو فریقوں کے مساموں سے پھوٹتی ہے اور میری نظموں اور غزلوں کے ساتھ ساتھ میرے ڈراموں کے کرداروں، کیمرے کے فریموں میں اور جذبات واحساسات کی Visual Interpetations کی مختلف سطحوں میں کار فرما نظر آتی ہے۔

پاکستان ٹیلی وِژن نے خدا کے فضل و کرم سے مجھے بہت نام دیا ہے ،یہ میری محنت،مسلسل محنت، لگن اور خود احتسابی کا ثمر ہے۔ میرے ڈائریکٹ کیے ہوئے مشہور ڈرامے، سیریلز اورلانگ پلیز

 Impactٹیلی وِژن دیکھنے والوں کے دلوں میں ہے۔ جن میں ڈراما دن،حصار،فشار،خواجہ اینڈ سن، قاسمی کہانی، دلدل،کہانی گھر اور نشیب جیسے سیریلز ہیں جو میرے لیے باعثِ افتخارہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک ڈائریکٹر اپنی تمام تر تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک اچھا سیریل پروڈیوس کرتا ہے تو وہ دراصل ایک اچھی کتاب تخلیق کرنے کے برابر ہے اگر آپ یہ مان لیں تو میری کئی کتابیں آچکی ہیں جن کو دیکھ کر میرے ویورز نے بارہا میری تخلیقی اپچ کی داد دی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ٹیلی وِژن نے میرے Creative Self کو زیادہ اپنے تصرف میں رکھا اور شاعری۔ ۔ ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شاعری میری محبت ہے لیکن میں اس سے محبوبوں جیسا نہیں محبوباؤں جیسا سلوک کرتا ہوں۔ شاعری کو میں نے اس وقت تک گلے نہیں لگایا جب تک اس نے ضدّی بچّے کی طرح نوچ نوچ کر اور مجھ سے لپٹ لپٹ کر مجھے اپنے جیسا نہ کر ڈالا۔چناں چہ میں نے جو کچھ لکھنے کی کوشش کی اس میں ’’شدت اظہار ذات‘‘ ہی کا مسئلہ رہا۔کم لکھ پاتا ہوں کیوں کہ اظہار کی شدت لفظوں کے خول توڑ کر ان میں سنّاٹا بھردیتی ہے۔پھر دیر تک خشک جنگل کی طرح گونجتا رہتا ہوں۔ایسے میں کوئی کیا لکھے اور کیسے لکھے۔

میری پہلی کتاب ’’گلِ موسم خزاں‘‘ بہت دیر میں چھپی اور اگر خالد احمد میرا دوست نہ ہوتاتو پتا نہیں کب چھپتی، کبھی نہ چھپتی۔بہ ہرحال یہ خالد احمد کا کمال ہے کہ اس نے ’’گلِ موسم خزاں‘‘ کو ترتیب دیا اسی کی طعن وتشنیع کے نتیجے میں کئی نظمیں اورغزلیں مجھ سے سرزد ہوئیں، میں بے حدشکر گزار ہوں خالد احمد کاکہ وہ مجھے جب بھی ملا،کہیں بھی ملا، مجھے اپنی شاعری اس کی انگلی تھامے مجھ سے ناراض ناراض ،منہ بسورے ہوئے نظر آئی۔ یہ اکثر مجھ سے ٹی وی ڈراموں کے ہجوم میں کھو جاتی ہے لیکن خالد احمد اسے کبھی اِدھراُدھر بھٹکنے نہیں دیا۔ کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈڈھانڈ کے میرے پاس ہی لے آتا ہے، پھر مجھے ڈانٹتا ہے کہ سنبھالو اسے۔ بہت ظالم ہیں لوگ، چرا لیتے ہیں اگر کسی نے لمباہاتھ مار لیا تو کیا بچے گا تمھارے پاس۔ندیم صاحب کو کیا منہ دکھاؤگے۔ گل زار صاحب کو اورمنصورہ کو کیا جواب دوگے!میںشکرگزار ہوں خالد احمد کا کہ اس کی سرزنش مجھے لکھنے کی طرف مائل کرتی ہے۔

اس کتاب کا دیر سے آپ تک پہنچنا میری لاپروائی کا دوسرا واقعہ ہے۔ اس کتاب کا کتابت شدہ مسودہ صفدر حسین نے ایک سال پہلے میرے حوالے کیا اور اس کے پروف پڑھنے کے باوجود یہ میرے پاس پڑا رہا اور میںٹیلی وِژن میں ڈرامے تخلیق کرتا رہا۔ بھلا ہو صفدر حسین کا کہ میرے پیچھے پڑپڑ کے مسودہ اس نے دوبارہ اپنے قبضے میں کیا ،ورنہ میں نے تو اس کے نہ چھپنے کے سارے اسباب پیدا کردیے تھے۔ اندازہ لگا لیجیے کہ اس نے مجھے یرغمالیوں کی طرح اپنے دفتر میں بٹھا کر یہ صفحے مجھ سے لکھ وائے اور چائے کے زور پر فہرست بنوائی اورکتاب چھاپ کر آپ تک پہنچانے میں کام یاب ہوگیا۔میرے ہاتھ تو خالی کردیئے نا اس نے۔ بھلا ہو اس کا۔ ۔ ۔

ایوب خاور  یکم جنوری /1998ء
 

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE