|
کچھ اپنے بارے میں ایوب خاور
میں ضلع چکوال کے ایک نواحی گاؤں میں گرمیوں کی ایک زرد سہ
پہر کو پیداہوا۔یہ
1948ء کے جون کی بارہویں سہ پہر تھی۔ ماں باپ نے میرا
نام محمد ایوب خان رکھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری اسکول میں ہوئی۔
چھٹی جماعت چکوال کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں اور پھر ساتویں سے میٹرک تک کا
عرصہ میں نے کراچی کے مقبولِ عام ہائی اسکول شرف آباد کے کلاس روموں میں
گزارا۔پھر کراچی ہی کے نیشنل کالج سے بی۔اے اور کراچی یونی ورسٹی سے اُردو
ادب میں ایم۔اے کیا۔ اُس کے فوراً بعد ہی پاکستان ٹیلی وژن کا رپوریشن کے
ساتھ پروگرام پروڈیوسر کی حیثیت سے منسلک ہوگیا۔ یہ جو میری پہلی کتاب ہے’’گلِ موسمِ خزاں‘‘ اسی ہم کلامی کی ترتیب ہے۔ زندگی نے جس حُلیے میں مجھے پہلی مرتبہ دیکھا تھا ،اتنے برسوں میں نہ جانے کتنے بچوں کو مَیں نے اِس حُلیے میں دیکھا ہے گویا اِن تیس پینتیس برسوں میں کچھ بھی نہیںبدلا،صرف تبدیلی کی خواہش اس خطّے کی آب و ہَوا میں سُوکھے بادلوں کی طرح گرجتی رہی ہے۔گلِ موسمِ خزاں ،اسی تشنہ کامی اور اسی خواہشِ ناتمام کا پیش لفظ ہے۔ یکم جولائی/ 1991ء ................................................... کچھ بھی نہیں بدلا ’گل موسم خزاں‘‘پہلی بار1991ء میں اسلم گورانے شائع کی جس میں1970ء سے 1990ء تک کا میرا کلام شامل ہے۔دوسری بار صفدر حسین نے اپنے ادارے الحمدپبلی کیشنز کے زیرِاہتمام 2001ء میں ’’تمھیں جانے کی جلدی تھی‘‘ کے ساتھ ہی شائع کیا۔لیکن محترم اختر حسین جعفری جو ہمارے عہد کے انتہائی قابل ذکر اور منفرد نظم نگار ہیں، اُن کی وہ تحریر جو انھوں نے بہت محبت اور سنجیدگی کے ساتھ میری شاعری کے بارے میں لکھی تھی اور اس کتاب کی پہلی اشاعت میں شامل تھی، گم ہوجانے کی وجہ سے دوسری اشاعت میں شامل نہ ہوسکی اور خود میں نے جو اپنے بارے میں فلیپ کے طور پر پہلی اشاعت کے لیے لکھا تھا وہ بھی ناپید تھا۔ خوش قسمتی سے یہ دونوں تحریریں مجھے اپنے پیارے دوست اور بہت اچھے شاعر اور خاکہ نگار اعجاز رضوی کے گھر سے مل گئیں جو اَب ’’گل موسم خزاں‘‘ کی تیسری اشاعت میں شامل ہوگئی ہیں۔ پروف ریڈنگ کے دوران میں نے کچھ نظموں اور غزلوں میں ترمیم و اضافہ بھی کیا ہے، اس خیال سے کہ تخلیقی سفر میں ترمیم و اضافہ بلکہ ردّو قبول کو بھی شاعر ادیب کے Progressiveاور مثبت رویّے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ میں نے صفدر سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے ادارے کے زیرِاہتمام شائع ہونے والی دونوں کتابوں کی تقریبِرونمائی اکٹھی کریں گے مگر تب سے اب تک میں کسی ایسے دن سے ہاتھ ہی نہ ملاپایا جس کی شام اپنے دوستوں کو اکٹھا کرسکتا۔تب سے یہ وقت آگیاکہ’’ گل موسم خزاں‘‘کاتیسراایڈیشن پریس میں جارہا ہے۔ زندگی نے ویسے بھی ہمیں سستانے کے لیے اپنی چھاؤں میں کب اتنی جگہ دی ہے کہ تازہ دَم ہوپاتے۔جب میں نہیں تھا اور جب میں بچہ تھا اُس زمانے میں پاکستان کے وجودکے اندر جو شکست وریخت ہوتی رہی، اُس کا سچ جھوٹ کتابوں میں پڑھا۔1971ء میں آدھا پاکستان ہمارے وجود سے کٹ گیا۔1977ء تک اس آدھے زخمی وجود پرہمت وجرات کے پھائے رکھنے میں گزرے،پھر گیارہ سال تک باقی ماندہ پاکستان سے سورج ناراض رہا۔اگلے بارہ چودہ سال تک سیاسی شعبدہ باز ایک نئے رُخ سے اس کے مندمل وجود کے کھرنڈنوچنے میں لگے رہے۔ پھر 1999ء کے آسمان سے ایک نئی ڈکٹیٹرشپ اُتری اورہمیںٹوئن ٹاورزکی طرح زمیں بوس ہوتے ہوتے آٹھ سال لگ گئے ۔اور اب تو شکاری مچانوں سے اُتر کر اور خندقوں سے نکل کر ہمارے سامنے آگئے ہیں۔اور ہم ایک مجسم سوال کی طرح خود اپنے سامنے کھڑے ہیں۔کچھ بھی نہیں بدلا۔ یہاں میں یکم جولائی 1991ء کے لکھے ہوئے اپنے بارے میں ایک نوٹ جو ’’گل موسم خزاں کے پہلے ایڈیشن کے فلیپ کے طور پر شائع ہوا تھا اس کا آخری جملہ درج کرتا ہوں۔ کچھ بھی نہیں بدلا، صرف تبدیلی کی خواہش اس خطّے کی آب و ہَوا میں سوکھے بادلوں کی طرح گرجتی رہی ہے۔ ’’گل موسم خزاں، اسی تشنہ کامی اور اسی خواہشِ ناتمام کاپیش لفظ ہے۔‘‘ لگتا ہے ابھی
1971ء نہیں گزرا۔ 1977ء ابھی تک کال کوٹھڑی میں سسک رہا ہے۔1979ء ابھی تک
پھانسی گھاٹ پر لٹک رہا ہے اورگزشتہ آٹھ نو سال ٹوئن ٹاورز کے ملبے تلے دبے
کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ |