Urdu Manzil


Forum
Directory
Overseas Pakistani
 

 احمد ندیم قاسمی

علامت اوراستعارے سے جو بھرپور فایدہ ایوب خاورنے اُٹھایا ہے ،اس کی توفیق نئی نسل کے کسی بھی دوسرے اہم شاعر کو نہیں ہوئی۔ یوں سمجھئے کہ ایک ایسے دور میں جب علامت،عدم ترسیلِ معانی کا شکار ہورہی تھی اور جب استعارے کا تناظر ابہام کی لپیٹ میں جارہاتھا۔ایوب خاورنے اپنی اپج، ذہانت اور تخلیقی وفور کے بل پر علامت اور استعارے کو حیاتِ نوبخشی اور شعر و ادب کے ان امکانات کو نہ صرف زنگ خوردہ ہونے سے بچا لیا بلکہ انھیں نئی وسعتوں اور رسائیوں سے روشناس کرایا۔میں ایوب خاورکی شاعری سے اس زمانے سے متعارف ہوں جب وہ کراچی یونی ورسٹی کا طالب عالم تھا ۔چناں چہ میں اس کے شعری سفر کے بیش تر مقامات و حالات سے واقف ہوں۔ اس لیے میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ خاور کے فن میں جو تدریجی ارتقاہوا ہے اس سے ان نوجوان اہل قلم کو بہت کچھ سیکھنا چاہیے جو یکایک ہائی جمپ یا لانگ جمپ لگا کر معروف و نمایاں ہونے کے درپے رہتے ہیں۔ دوام صرف تدریجی ارتقا سے ملنے والی شہرت کو حاصل ہے اوراس کی ایک جیتی جاگتی اور بلیغ مثال ایوب خاور کی شاعری ہے۔
 

اُردو میں نظم معریٰ اور نظم آزاد کے رواج کے بعد جن شعرا نے اس صنف سخن کو مقبول بنایا ہے ان میں ن۔م۔راشد،اختر الایمان، ظہور نظراورمجید امجد کے ساتھ ہی دیگر چند شعرا کے علاوہ مجھے ایوب خاور کا نام بھی ہمیشہ یاد آتا ہے۔ ہمارے اس نوجوان اور تازہ گو شاعر نے جس سلیقے اور آسانی اور روانی کے ساتھ آزاد نظمیں لکھی ہیں وہ اسی کا حصّہ ہے۔ اس کی قریب قریب ہر نظم کے مطالعے سے مجھے آزاد نظم کے آفاق، حدِّنگاہ تک پھیلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ایوب خاور کی نظموں کے مطالعے سے ہر ذہین قاری کا یہ یقین پختہ ہوگا کہ نظم آزاد کے امکانات اتنے لامحدود اور اتنے بے پناہ ہیں کہ جب تک شاعری ان سبھی امکانات کو مسخر نہیں کرلیتی۔نام نہاد نثری نظم کا کوئی ابتدائی جواز بھی پیدا نہیں ہوتا۔ آخر انسان کے پاس پھر سے غاروں میں اُترنے اور درختوں پر چڑھ جانے کا کوئی تو جواز چاہیے۔

ایوب خاوراپنی آزاد نظموں میں مصرعوں کو کہیں کہیں سے توڑ کر انھیں مصنوعی طریقوں سے پڑھنے والے کو چونکا تایا صدمہ نہیں پہنچاتا بلکہ وہ دریا کی طرح رواں دواں رہتا ہے۔ اس لیے اگر اس کا کوئی مصرع بہت طول کھینچ جاتا ہے تو وہ اس سے گھبراتا نہیں بلکہ جانتا ہے کہ جو’’روم‘‘ اس نے منتخب کیا ہے وہ اگر برقراررہے تو ایک مصرعے کو ایک صفحے تک کھینچا جاسکتا ہے بلکہ آزاد نظم تو ایک طرح سے ایک طویل مصرع ہی ہوتی ہے۔ وہ بہاؤ جو نظم آزاد کے پہلے لفظ سے آخری لفظ تک موجود رہتا ہے، ایوب خاورکے ہاں باقاعدہ ایک فنی اعجاز بن گیا ہے۔ نظم آزادکا پیرایہ اظہارایوب خاور کے مزاج وافتاد کے عین مطابق ہے اور اگرچہ افواہ ہے کہ اس نے چند نثری نظمیں بھی لکھی ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ نظم آزاد کے وہ امکانات اسے کبھی بھٹکنے نہیں دیں گے جن سے وہ بہت اچھی طرح متعارف ہے۔

ایوب خاورکے موضوع ومواد کی ایک اہم خوبی اس کا مفکرانہ انداز ہے۔ وہ مسائل کی محض سطح پر نہیں منڈلاتابلکہ ان کی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے اس لیے اس کے فن میں ایسی گمبھیر تا،ایسا بھرپور پن ہے جو اس کے ہم سن شعرا میں شاذ ہی دست یاب ہے۔ یہ اُردو شاعری میں غالبؔ اور اقبالؔ کی فکری روایات کی توسیع ہے۔ دراصل ہر دور کے اپنے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں اور ہر دَور کا مفکر انھی تقاضوں کے تحت ان مسائل کا فنی تجزیہ کرتا ہے۔ یوں ہر نئے دور کی فکر کو گزشتہ دور کی توسیع قرار دیا جاسکتا ہے۔مسائل کا ردِّعمل منفی بھی ہوسکتا ہے اور مثبت بھی۔ ایوب خاورکا رجحانِ طبع بیش تر اثبات کا ہے۔ اگراس کے ہاں کہیں کہیں نفی کی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہے تو یہ شر کی نفی ہے اور شر کی نفی ہی خیر کے اثبات کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ ایوب خاوربے کیفیوں،اداسیوں اور شکستوں کا فاتح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں اور غزلوں میں انتہائی کرب کے موثر اظہار کے باوجود اس افق کی کیفیت مسلسل موجود رہتی ہے جو طلوعِ آفتاب کی پزیرائی کے لیے آہستہ آہستہ منور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایوب خاورکا یہ فکری اسلوب اسے اپنے دور کے شعرا میں ایک امتیاز بخشتا ہے اور یہی امتیاز اس کی پہچان ہے۔

ایوب خاورکی غزل بھی اس کی نظم کی طرح تہہ دار ہے۔ ویسے صحیح معنوں میں تو غزل ہوتی ہی تہہ دار ہے کیوں کہ اگر اس میں سے رمزیت کو خارج کردیا جائے تو وہ ایک کھنڈر سا بن کر رہ جاتی ہے مگر خطرہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں شاعر اپنے عہد کے آشوب اور کرب کو الفاظ میں منتقل کررہا ہوتا ہے تب غزل عموماًبیانیہ شاعری میں بدل جاتی ہے اور اگرچہ بیانیہ شاعری کی بھی ایک اپنی اہمیت ہے مگر غزل کے لیے بیانیہ اسلوب کسی صورت میں مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ایوب خاورغزل کے رمزیاتی حسن سے جی بھر کر کام لیتا ہے۔ صداقت کی جستجو میں بھی رہتا ہے، وہ بے چین بھی ہوتا ہے،کڑھتا بھی ہے مگرمجال ہے جو اس کے ہاں Narrationکا انداز جگہ پاسکے۔

وہ اوّل و آخر شاعر ہے ، وہ شاعری کے جملہ مطالبات کا لحاظ رکھتا ہے اور تمام فنی تقاضوں کا احترام کرتا ہے اور وہ اس کے باوجود جدید ہے بلکہ جدید تر ہے۔ علامتوں، استعاروں اور لفظوں کو نئی معنویتوں سے آراستہ کرنے والا شاعر،تیکھا شاعر اور جدید ترکا نمائندہ شاعر۔۔

 

Blue bar

CLICK HERE TO GO BACK TO HOME PAGE