|
خاوربھائی اعجازرضوی فنون ماڈل ہائی اسکول میں داخلہ لینے کے بعد پہلے دن جب میں ڈرتے ڈرتے کلاس روم میں داخل ہوا تو جن چار ہونہار طالب علموں سے ملاقات ہوئی ان میں ایوب خاوربھی شامل تھے۔باقی تین طالب علموں میں خالد احمدصاحب،نجیب احمد صاحب اور قائم نقوی صاحب شامل ہیں۔ شاید ان دنوں یہی تینوں ریگولر طالب علم تھے۔پھر بعد میں ندیم صاحب کی طرف سے ریگولر طالب علم کا خطاب مجھے ملا، فنون ماڈل ہائی اسکول میں پڑھنے والے کچھ طالب علم تو ابتدا ہی میں استاد بن گئے تھے مگر جن چار طالب علموں سے پہلے دن میری ملاقات ہوئی تھی وہ اب تک ویسے ہی معصوم بھولے اور سیدھے سادھے ادبی قسم کے طالب علم ہیں۔خالد احمد صاحب بیاض کے مدیر ہیں مگر نئے لکھنے والوں کا یوں ٹیسٹ لیتے ہیں جیسے ان میں سے کسی ایک کو استاد بنانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ نجیب احمد صاحب بائی پاس کے مرحلے سے گزر آئے ہیں مگر ابھی تک دوستوں کے ساتھ چلتے ہیں اور کسی کو بائی پاس نہیں کرتے۔ قائم نقوی ماہ نو کے ایڈیٹر ہیں مگر یوں سادگی سے پھرتے ہیں جیسے ماہ نو میں غزل چھپوانا چاہتے ہیں۔رہے اپنے خاوربھائی تو ان کی سادگی کو دیکھیں تو دل بے ساختہ پکارتا ہے۔ ۔ ۔ حد کردی آپ نے حد کردی آپ نے۔ ۔ ۔ ایوب خاورچکوال کے رہنے والے ہیں مگر جب چکوال میں زبان اور رنگ زیادہ خراب ہوگیا تو یہ کراچی چلے گئے۔ ۔ ۔ وہاں یونی ورسٹی میں باقاعدہ عشق کا قاعدہ پڑھا اور شادی شدہ ہونے کی سند پائی اور روزی روٹی کے چکر میں پی ٹی وی جوائن کرلیا، انھی دنوں سے بھابی ،اُن کے ساتھ ہیں اور برملا کہتی ہیں کہ روٹی تو ٹھیک ہے ،مگر میں خاور کے ساتھ یوں رہتی ہوں تاکہ پتا چلے یہ کم بخت روزی کون ہے۔ ایوب خاورنے جونیئر پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی بہت اچھے پروگرام تخلیق کیے اور ابتدا ہی میں اپنی ذاتی قابلیت اور تخلیقی صلاحیت کی بنا پر وہ سب کچھ کر دکھایا جو اس وقت کے سینئر پروڈیوسر صرف سوچا کرتے تھے، اچھے پروگراموں کی روک تھام کے سلسلے میں ایوب خاور کو کراچی سینٹر سے لاہور سینٹر بھیج دیا گیا، لاہور آکر ایوب خاور نے ایسے ایسے ڈرامے تخلیق کیے اور وہ وہ غزلیں اور نظمیں لکھیں کہ ایک بار پھر دل بے ساختہ پکاراٹھا۔ ۔ ۔ حد کردی آپ نے،حد کردی آپ نے ایوب خاورکا اصل نام ایوب خان ہے جس طرح پاکستان میں بہت سے غالبہیں مگر جب ہم کہتے ہیں کہ غالب نے کہا تو اس سے مراد ہوتی ہے مرزاغالب نے کہا،اسی طرح جب ہم ایوب خان کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے، فیلڈ مارشل ایوب خاں، اسی لیے ہمارے ادبی ایوب خاں نے اپنا نام ایوب خاں سے بدل کر ایوب خاورکرلیاتھا کہ کہیں فیلڈ مارشل ایوب خان کے تمام بڑے کام ان کے نام نہ لگ جائیں اور ان کی تمام خوب صورت شاعری جیسے۔ ۔ ۔ سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام ہر سر میں ہے رنگ دھنک کا تیرے نام ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں ایک دل تھا جسے پہلے ہی گنوا بیٹھے ہیں اور اس گھر میں بچا کیا ہے لٹانے کے لیے یہ اور اس طرح کے بہت سے خوب صورت شعر، غزلیں اور نظمیں فیلڈ مارشل ایوب خان کے نام سے مشہور نہ ہوجائیں۔ ایوب خاور کا قد بچپن ہی سے بڑا ہے اور اس بڑے قد میں ان کی ماں کی دعا بھی شامل ہے کہ وہ ہروقت دعا کرتی تھیں کہ میرا بیٹا بڑا آدمی بنے،سو ایوب خاور چھ فٹ سے بھی زیادہ کا بڑا آدمی بن گیا،جہاں تک شاعر بننے کا تعلق ہے تو یہ ان کی بیگم اور بیگم کے ساتھ اس روزی کی کرامت ہے جس کو کسی نے آج تک نہیں دیکھا۔ سنا ہے لمبے آدمی کی عقل گٹوں میں ہوتی ہے مگر ایوب خاورکی شاعری نے ثابت کیا ہے کہ شاعری عقل کے زور پر نہیں ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے ویسے اگر شاعری قد، عقل اور ڈکشنری کے زور پرہوتی تو آج ہر شخص فیض اور ندیم ہوتا۔ ایوب خاور بنیادی طور پر ایک تخلیق کار میں اورتخلیق کار ہر شعبہ میں صلاحیت کو منواتا ہے ایوب خاور نے بھی ڈراماپروڈکشن میں جوکام کیا وہ نئے پروڈیوسروں کے لیے ایک اہم بنیاد ی نصابی کام کی حیثیت رکھتا ہے۔ایوب خاور نے جو غزلیں لکھیں،وہ غزل گوشاعروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ایوب خاورنے جو نظمیں لکھیں وہ نظم نگاروں کے لیے ایک مثال ہیں ایوب خاور نے کہا۔ جب تلک تجھ سے کوئی بات نہ ہو میں تجھے دیکھ نہ لوں تمھیں جانے کی جلدی تھی سو اپنی جلدبازی میں تم اپنے لمس کی کرنیں نظر کے زاویے پوروں کی شمعیں میرے سینے میں بھڑکتا چھوڑآئے ہو ایوب خاور کی پہلی کتاب ’’گل موسم خزاں کا انتساب ان کی بیگم کے نام ہے مگر اس میں لفظ عزیزہ لکھا ہے، اس لیے لوگ پوچھتے ہیں، یار ایوب خاورتو شریف آدمی ہے، پھر یہ عزیزہ کون ہے۔ ۔ ۔ جس زمانے میں ایوب خاور کے پاس کاواساکی موٹر سائیکل ہوتی تھی، اس زمانے میں یہ پروڈیوسر کم اور کوریئر سروس کا نمائندہ زیادہ لگتے تھے ادھرموٹر سائیکل اسٹارٹ کی ،کچھ دور چلے ،پھر رُکے ،اپنے بیگ کو چیک کیا، کچھ نوٹ کیا ،پھر چلے ،پھررُکے، موٹرسائیکل کوغصہ سے ہلایا۔ٹینکی کھولی، پٹرول چیک کیا اور غصہ سے بولے، یار یہ پٹرول بہت کھاتی ہے اگر یہ سالی مونث نہ ہوتی تو میں اس کی ایسی تیسی کردیتا۔ اسی طرح ایک دن یہ مجھے اپنی موٹرسائیکل پربٹھا کر ٹی وی اسٹیشن جارہے تھے کہ راستے میں ایک ٹریفک سارجنٹ نے ہمیں روک لیا اور بڑے غصّے سے مجھے مخاطب کیا، اوئے پچھے بہہ کے موٹر سائیکل چلا ریا ایں؟ میں نے کہا،میں موٹر سائیکل نئیں چلا ریا ایہہ چلا رئے نیں، سارجنٹ نے ایوب خاور کو غور سے دیکھا اور کہا، ٹھیک اے جاؤ۔ ۔ ۔ پر یار منہ تے کوئی نشانی تے لاؤ، تاں جے پتا چلے کے بندہ بیٹھا اے۔ ۔ ۔ لگدا اے چٹی شلوار قمیص موٹر سائیکل چلا رئی اے۔ بس اسی دن ایوب خاور نے موٹر سائیکل چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور ایک پرانی کار لے لی ۔کارلے کر یہ فنون کے دفتر آئے، خوشی سے ندیم صاحب کو کار کی زیارت کروائی۔ ۔ ۔ ندیم صاحب بہت خوش ہوئے اور بولے بھئی کتنے روپے کلوملی یہ کار۔ایوب خاور نے اس فقرے پر ایک قہقہہ لگایا، ہاہاہا، اور کہا بس مل گئی اس دن سے آج تک ایوب خاور اس طرح کار چلا رہے ہیں جیسے بچے ویڈیو گیم کھیلتے ہیں۔ ایوب خاور کا زیادہ وقت پنجاب اور باقی سندھ میں گزارہے، اس لیے، ان کی مادری زبان اور فادری زبان کا، کچھ پتا نہیں۔ ۔ ۔ ایک دن ایک شخص ٹھیٹ پنجابی میں ان کے ڈراموں کی تعریف کررہاتھا، اور کہہ رہا تھا، تسی ،لوکاں نوں میٹر کردیتا اے۔ ۔ ۔ میں آنا تسی کی شے ہوبادشاہو تسی بڑی شے ہو، تسی ڈراما کررہے او، جگر جان تسی،بس تسی او، وہ شخص جب تعریفیں کرچکا تو خاور بھائی کو تھاپی دے کر رخصت ہوگیا تو ایوب خاور نے اسے حیرت سے دیکھا اور مجھے مخاطب کیا اور کہا، یار مولوی، ایس بندے نوں شاید اندازہ نئیں نہ ہی ایس نوں ساڈے بارے میں زیادہ معلومات نیں، ورنہ اے ایسی گلاں نہ کردا۔ ۔ ۔ یار مولوی اگر مجھے ایہدی گلدی سانوں سمجھ آجاندیاں تو اس کی ایسی تیسی کردیتا۔ میں نے ان کی بات سنی تو بولا۔خاور بھائی،پنجابی تو صحیح بولیں تو انھوں نے جواب دیا۔مولوی تینوں معلوم نہیں،چکوال اور کراچی دے درمیاں وچ پھر پھر کے لوگوں کی ایسی ہی پنجابی ہوتی اے، میں نے کہا ہوندی اے تے فیر ہونے دو۔ ۔ ۔ ایوب خاور نے کہا دیکھا،پھر جی، تم بھی اب صحیح پنجابی بولنے لگے۔ ۔ ۔ اسی طرح کی پنجابی بول بول کے تو کراچی اورلاہور میں یکساں مقبول ہوگئے۔ ۔ ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، ایوب خاور کی آواز اتنی خوب صورت ہے کہ اگر کسی کو ڈانٹ رہے ہوتو، سامنے والا چاہتا ہے کہ بس ڈانٹتے رہیں۔ایوب خاور سے کسی معاملے پر بات کرو تو وہ کہتے ہیں، دیکھونایار،بات یہ ہے، دوسرا کہتا ہے کیا بات ہے، تووہ کہتے ہیں، یار تم بات سمجھے نہیں دوسراکہے ہاں میں سمجھا نہیں تو یہ کہتے ہیں، بس یہی تو بات ہے، دیکھو نا یار بات سمجھو۔ ۔ ۔ میں شاعر ہوں کوئی پروڈیوسر نہیں ہوں۔ ۔ ۔ چلو مان لیتا ہوں کے میں شادی شدہ ہوں مگر یار اب۔ ۔ ۔ مان لو نا میں شاعر ہوں اور ایوب خاور وہ واحد شاعر ہے جن کو ان کی بیوی بھی شاعر مانتی ہو۔ ۔ ۔ اب اگر کسی فن کار کو اس کی بیوی شاعر مان لے تو ہم کو بھی مان لینا چاہیے۔ سو ہم نے مان لیا، خاور بھائی آپ شاعر ہیں اب آپ بھی مان لیں کہ میں آپ سے آپ کی فیملی سے پیار کرتا ہوں۔ |