|
ایوب خاور،موت کی جمالیات کا شاعر امجدطفیل ایوب خاورکے اب تک تین شعری مجموعے’’گلِ موسمِ خزاں‘‘ اور ’’تمھیں جانے کی جلدی تھی‘‘اور’’بہت کچھ کھوگیا ہے‘‘شائع ہوچکے ہیں جن میں شامل نظمیں اور غزلیں ہمیں ایک ایسے شاعر کا پتا دیتی ہیں جس کے پاس اپنی بصیرت،اپناانداز اور اپنا طرز اظہارموجود ہے۔ایوب خاور کی شاعری میں کوئی ایسی بات ضرور ہے جو اسے اپنے ہم عصروں سے جدا کرتی ہے۔ اسے ایک منفرد شاعر کے طور پر اپنا وجود منوانے کے قابل بناتی ہے۔اب اگر ایوب خاور کی شاعری کے حوالے سے یہ کہا جائے کہ اس کا وزن درست ہے، اسے قافیہ ردیف استعمال کرناآتا ہے، اس نے شعری محاسن کو خوبی سے نبھایا ہے تو یہ ایسی بات ہوگی جسے یہ کہا جائے کہ ایوب خاور کو چلنا پھرنا آتا ہے۔وہ کھانے پینے کے آداب سے واقف ہے کیوں کہ کسی بھی فن کے بنیادی لوازمات پورے کیے بغیر کسی کو اس فن کے دائرے میں داخل ہونے کا اذن نہیں ملتا اور جو لوگ دائرے سے باہر ہوں ان کی شخصیت و فن پر گفتگو ادبی تنقید کی ذیل میں نہیں آتی اسے ہم تعلقاتی گپ شپ قرار دے سکتے ہیں۔ایوب خاور فن شاعری کے دائرے کے مرکز میں موجود ہے اور اپنے قارئین سے اس بات کا خواہاں ہے کہ اسے سنجیدہ ادبی معیارات کے مطابق پڑھا جائے۔ تخلیق کار کو اس دنیا میں جو باتیں تخلیق پر اکساتی ہیں ان میں سے ایک موت کا اسرار ہے۔انسانی زندگی کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اسے مرنا ہے اور شاید ایک تخلیق کار سب سے زیادہ اس حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے کہ زندگی ایک ایسے راستے کا نام ہے جس کا اختتام موت کی وادی پر خارپہ ہوتا ہے۔ایوب خاور کی کئی ایک نظمیں موت کے مظہر سے، شاعر کے مکالمے کی روداد ہیں۔ ایوب خاور موت کی ہیبت سے سہما ہوا نہیں۔وہ خود کو بے بس اور لاچار ضرور پاتا ہے لیکن یہ بے بسی اور لاچاری اس کے ہاں کسی مریضانہ اعصابی اداسی اور تنہائی کو جنم نہیں دیتی۔وہ اس دہشت ناک مظہر کے سامنے کھڑا ہے اور ہر لمحہ اپنی طرف بڑھتی موت سے مکالمہ کرتا ہے۔اس نے موت کو ایک محبوبہ کے روپ میں دیکھا ہے۔محبت اور موت اُس کے ہاں یوں باہم ہوئے ہیں کہ مرنا ایک خوب صورت لمحۂ وصال کی طرح محسوس ہوتا ہے۔اس حوالے سے خاص طور پر اس کی نظم ’’اپنی موت پر ایک نظم‘‘کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔جس میں موت اور محبت کے مظہرایک دوسرے سے ہم آہنگ ہورہے ہیں۔نظم کا انجام ہمیں شاعر کے سکون اور اطمینان کا پتا دیتا ہے۔ مری میت کومٹی دینے والوں میں مرے کچھ خوابچے،کچھ آرزوئیں اور کچھ نظموں کی سطریں رہ گئی ہیں شام گہری ہونے والی ہے کفن سرکاکے بس اب آخری بار اک ذرا اپنے لبِنم ساز سے جاناں! مری میت کے ماتھے اور آنکھوں اور ہونٹوں پر دوبارہ ایسے لمحوں کے ستارے ٹانک دو جن کی کرامت روزِ محشر تک لحد کے سرد اندھیروں میں مہکتی روشنی بھردے موت کو اس طرح قبول کرنے کا رویہ ہمیں صرف سچے تخلیق کاروں کے یہاں دکھائی دیتا ہے کیوں کہ ان کے پاس وہ قوتِ متخیلہ موجود ہوتی ہے جوزندگی کی بے ثباتی کو بقاکا استعارہ بناتی ہے۔موت کے منظر سے مکالمہ کرتی ہوئی دوسری اہم نظم ’’ایک مرتے ہوئے آدمی کے لیے نظم‘‘ ہے۔یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے کہ شاعر نے اپنا دوسرا مجموعہ کلام مرتب کرتے ہوئے ان نظموں کوپہلوبہ پہلو رکھا ہے بلکہ یہ جو میں دوسری نظم کا حوالہ دے رہا ہوں تو یہ کتاب میں پہلے درج ہے اور مجھے یہ دونوں نظمیں ایک فکری تسلسل کی حامل محسوس ہوتی ہے۔یہ جو مرتا ہوا آدمی ہے یہ کوئی اور نہیں شاعر خود ہے۔اس بات کی دلیل خود نظم کے باطن میں موجود ہے میں اس نظم سے ایک طویل بند نقل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ کون ہے وہ! کس کے کہنے پر تمھارے سینۂ خالی کی محرابوں سے یہ لشکر چمٹتا جارہا ہے! اور تمھارے لشکر وطبل وعلم کیوں سرنگوں ہیں تم شکستِذات کے کن مرحلوں میں ہو ادھر دیکھو تمھارے ہونٹ اتنے سرد کیوں ہونے لگے ہیں کیوں رگوں میں دوڑتی پھرتی لہوکی ندیاں جمنے لگی ہیں! موسمِ گل پر اچانک برف باری کا سبب کیا ہے کہو!کچھ تو کہو وہ کون ہے کس سے تمھاری دشمنی ہے! کس نے پل بھر میں تمھارے جسم و جاں میںموت بھردی ہے تمھیں معلوم ہے اس حسن زادی کا کوئی نام و پتا معلوم ہے کچھ تو کہو بھائی کہو، کچھ تو کہو نا میرے بھائی اب تمھیں مرنے سے تو شاید بچایا جا نہیں سکتا مگر آنکھیں کھلی رکھنا کہ میں اس حسن زادی (رات کی صحباں) کا عکسِ مطمئن ان بے صداآنکھوں میں پڑھنا چاہتا ہوں یہ جو اوپر میں نے طویل اقتباس درج کیا ہے اس کی ساری ساخت ایک مرتے ہوئے آدمی کی کیفیات اور احساسات کو گرفت میں لینے سے عبارت ہے موت کوئی ڈرانے والی حقیقت نہیں بلکہ حسن زادی ہے۔جس کا عکس شاعر اپنی آنکھوں میں سمونا چاہتا ہے۔ یہی تخلیق کا حسن ہے کہ ایک انتہائی ہیبت ناک مظہر کوجمالیاتی پیرہن پہنا دیا گیا ہے۔موت کو جمالیاتی رخ سے پیش کرنے کی یہ ادا ہمیں بہت کم شاعروں کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ایوب خاور اپنے تخلیقی سفر کے آغاز ہی سے موت کے ساتھ مکالمہ کرنے میں مصروف ہے۔ اس کی نظم ’’زندگی اور موت کے درمیان ایک نظم‘‘ہو یا ابھی جنازہ اٹھا نہیں ہے ’زندگی اور موت کے درمیان ایک نظم‘‘ میں تخلیق کار اس ادراک کے باوجود کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے ،زندگی سے جڑے رہنے کی سعی کررہا ہے وہ کسی صورت زندگی کا دامن چھوڑنے پرآمادہ نہیں ہے۔ جاں بہ لب ہیں مگر اک حرفِ تسلی کے لیے زندگی ہم تیری دہلیز پہ آبیٹھے ہیں ہاتھ میں کاسنہ تدبیر لے زندگی ہم تری دہلیز پہ آبیٹھے ہیں اس نظم کا تعلق ایوب خاور کی جوانی سے ہے ۔شاعر اپنی ساری توانائی کے ساتھ زندگی سے جڑنے کی کوشش کررہا ہے جوانی میں شاعرکو یہ دعوا بھلا لگتا ہے کہ اس کے پاس کا سۂ تدبیر ہے۔اس لیے وہ جاں بہ لب ہونے کے باوجود زندگی سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے مگر تھوڑا سا آگے چلیں تو نظم ’’ابھی جنازہ اٹھا نہیں ہے‘‘ ہمارے راستے میں آکھڑی ہوتی ہے۔ ہوا دریچوں میں بند ہے اور خواب آنکھوں میں قید ہیں اور آہٹیں راستوں میں زنجیر ہوگئی ہیں محل سرا کے تمام دیوار ودر منقش سکوت اوڑھے ہوئے کھڑے ہیں گزشتہ عمروں کی دھول معزول خلوتوں میں چراغ کی بے لباس لو سے گریز پا ہے تخت و ایوان کے حشم کو دوامِ عکس اب تک میں نے اپنی گفتگو ایوب خاورکی نظموں تک محدود رکھی ہے اب ہم اس کی غزل کی طرف آتے ہیں۔ مجھے ایوب خاور کی غزلیں اور نظمیں پڑھتے ہوئے یہ شدید احساس ہوتا رہا ہے کہ ان کے پیچھے ایک تخلیقی وجدان اورسماجی اورسیاسی شعور کارفرماہے۔ شاعر نے اپنے غزلیہ اشعار میں بھی موت کی جمالیات کو پیش کیا ہے۔ اے جمالِ فن اُسے مت روکہ تن آسان تھا تیری دنیاؤں کا خاور صرفِ دنیا ہوگی اب ایسا نہیں کہ شاعر اپنی بات کو صرف جسمانی موت تک محدود رکھتا ہے بلکہ اس کے ہاں تو تمنّا کی موت بھی جسمانی موت کے المیے سے جڑجاتی ہے۔ سپرد خاک کیا پہلے ہر تمنا کو پھر اس کے بعد بچھادی ہے اُن پہ چادرِ خواب اس کے ہاں حسرت مٹی میں ملتی ہے۔یاپھرجب یاد موت بن کر دل پر گرتی ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کا تخلیقی وجدان اپنے اِردگرد کی فضا میں موجود ہر اس بات کو جذب کررہا ہے جو اس کے جمالیاتی تجربے کو وسعت دے سکے۔ حسرتِ گردِ رہ یار تھی چشم ذرئہ جاں تھی سو مٹی میں ملی وہ تری یاد کی پرچھائیں تھی موت بن کر جو میرے دل پہ گری شاعر کو اس با ت کا بخوبی احساس ہے کہ موت اختتام زندگی ہے۔مگر جب پروین شاکر کی موت پر لکھی گئی ایک غزل کا مطلع کہا تو گویا موت سے اُس کا احساسِ جمال کشیدکرلیا۔ یہ تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ مر جائے گا چاند اک قبر کے سینے میں اُتر جائے گا اب اس نے موت کی کیفیت کو کیسے نادر انداز میں بیان کیا ہے کہ انسان حیرت سے چونک اٹھتا ہے۔ہم ساری زندگی بھاگ دوڑ کرتے رہتے ہیں ہر لمحے کسی نہ کسی کی تاک میں ،کسی کو پانے کے لیے ،کچھ حاصل کرنے کے لیے اور جب موت کے ہاتھ ہم تک پہنچتے ہیں تو اس وقت بھی یہی خیال دل میں ہوتا ہے کہ اگر یہ دوچار دن اور رک جاتی تو نہ جانے ہم کیا کرلیتے ۔شاعر اسے کچھ یوں رقم کرتا ہے۔ شکار آنکھوں کے سامنے تھا مگر مری موت آچکی تھی اجل سمے کے اٹل ارادوں کے سامنے آسمان تھا میں ایوب خاورکی شاعری کا جائزہ میں نے صرف ایک خاص زاویہ سے لیا ہے اور جن نظموں اور غزلیہ اشعارکا حوالہ دیا گیا ہے ان سے ہٹ کر بھی ان کا وفات پاجانے والے تخلیق کاروں کے لیے نظمیں لکھنا اسی زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے طاہرہ نقوی، فیض احمد فیض، احمدندیم قاسمی،علامہ اقبال ،اختر حسین جعفری،استاد نصرت فتح علی خاں، دل دار پرویز بھٹی اورپروین شاکر کے لیے جو نظمیں لکھی ہیں وہ موت کو ایک جمالیاتی استعارے کے طور پر قاری کو ایک ایسے پُل صراط پر لاکھڑا کرتی ہے جہاں منظر اور پس منظر عکس اور آئینے کی طرح مربوط دکھائی دینے لگتا ہے۔ اسی نکتۂ اتصال نے ایوب خاور کے تخلیقی وجدان کو ایک ندرت اور شاعری کی ایک انوکھی جہت سے ہم کنارکیا ہے۔ |