|
ایوب خاورکی شاعری بیاض کی طرف سے ایوب خاورکے ساتھ منائی جانے والی شام کا صدارتی مضمون[ ڈاکٹر ناہید قاسمی احمدفرازنے درست کہاتھا کہ ’’بڑوں کے چلے جانے نے ہمیں بڑا بنا ڈالا۔‘‘میں اپنے آپ کو ایسی اہم اور پروقار تقریب کی صدارت کا اہل نہیں سمجھتی۔نجیب بھائی کا بہت شکریہ کہ مجھے ایک بے حد منفرد شاعر ایوب خاور کے اعزاز میں منعقدہ اس تقریب میں شریک ہونے کا موقع دیا۔ ایوب خاور واقعی اپنے عہد کے شعرا میں منفرد ونمایاں
مقام رکھتے ہیں۔یہ انفرادیت نہ صرف ان کی حسین لفظیات سے ظاہر ہے بلکہ ان
کی مخصوص دلآویز ایمجری سے بھی واضح ہوتی ہے۔ان کی نظموں کا پیٹرن مثالی ہے
اور ان کے مصرعوں کی ترتیب ایسی کشش کی حامل ہے کہ نظم کے آغاز سے اختتام
تک روانی اور بہاؤ کا تسلسل برقراررہتاہے۔جب کہ نظموں کی بنت کا انوکھا پن
اور نظم وغزل میں برتے گئے موضوعات کو اظہارکے مختلف سانچوں اور زاویوں میں
مجسم کرنا بھی ایوب خاور کا اپنا ہے۔ یہ پرکشش انفرادیت ان کے جیسے جینوئن
اورحقیقی شاعر ہی کے حصے میں آسکتی ہے جو جذبہ واحساس اور فکر و دانش کے
ساتھ ساتھ بھرپور تخلیقی وفور بھی رکھتا ہو۔ ایوب خاورنے ہرگزرے لمحے کو اس کی اصلی اورسچی
گہرائی تک محسوس کیا ہے اور جو ان کے شعری تجربات و مشاہدات کے سرمائے میں
اضافہ کرتاجارہا ہے۔میرے نزدیک ایوب خاور کی شاعری میں دیہی اور شہری
زندگیوں کاخوب صورت اور شائستہ سنگم ہے۔ جبھی تو وہ ’’چھت پر سوکھتی
مرچوںاورگٹھڑیوں میں باندھے ہوئے دنوں‘‘ کے ساتھ ساتھ خوابوں اور آئینوں کا
ذکر بھی کرتے ہیں۔انھیں رومانویت کی کھلی چاندنی میں رہنا پسندتو ہے لیکن
وہ حقیقت کی تیز چمکتی دھوپ میں سفر کرنے سے گریز نہیں کرتے اور اس سب کچھ
کو اپنے خاص انداز بیان کے سانچوں میں سے گزار کر اپنی شاعری میں صورت
پذیرکرتے رہے ہیں اور یوں اپنی خاص پہچان اور الگ سا اسلوب ابھار لینے میں
کامیاب رہے ہیں۔ایوب خاورکی ایک خوب صورت نظم بہ عنوان’یہاں اک نظم رکھی
تھی‘ کے چند ڈھونڈتے ہوئے کھوجتے ہوئے متجسّس مصرعے سنیے۔ ’’عجب جادوگری ہے کار دنیابھی کوئی لمحہ فراغت کا نہیں ملتا گزرتے وقت کے پہیے سے اپنے پاؤں کا چکرملانے کی عبث خواہش میں جتنی دھول آنکھوں میں درآئی ہے بھلادیتی ہے کس کاغذ پہ کتنی نظم لکھی تھی کہاں کس خواب کے ٹکڑے پڑے ہیں کون سے کونے میں کس خواہش پہ مکڑی جال بُنتی جارہی ہے کون سی دیوار پر کس آئینے میں بے ضرورت عکس رکھا ہے ایوب خاور ایک ایسے شاعر ہیں جو بہت اداس ہیں۔کچھ تو اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کی شکست پر، کچھ اپنے اردگردپھیلے کم فہمی اور خود غرضی کے مظاہر پر، کچھ قدرتی آفات کے جبر اور انسان کی بے بسی پر اور کچھ عالمی آفاق پر سے گرجتی آتی ظلم واستحصال کی آندھیوں کی وجہ سے۔ ۔ ۔ لیکن اس گھنی گم بھیر اداسی میں بھی وہ ہمت اور حوصلہ نہیں ہارتے ہمیشہ ہر مقام اورہر موڑ پراپنے آپ کو بخوبی سنبھالے رکھتے ہیں اور بکھرنے سے بچالیتے ہیں۔ایوب خاوربہت ذہانت اور سلیقے سے اپنے افکاروخیالات اور احساسات و جذبات کو شعر میں ڈھالتے ہیں۔ان کی نظموں کے عنوانات میں اکثر لفظ ’’نظم‘‘ تواتر سے آتا ہے۔ نظم تو گویا ایوب خاور کی جان ودل ہے۔ ان کی محبوبہ ہے۔اپنی محبت کی تکمیل کی جستجو،اس کے لیے خاص احترام،پھر اپنی محبت کے دیئے سکھوں اوردکھوں کو وہ اپنے منفرد شہر نظم میں خوش دلی اور خوش ذوقی سے بساتے رہتے ہیں آباد رکھتے ہیں اور اُن سے ایک انوکھا لحاظ اور نرالی پاس داری برتتے ہیں۔ اک بگولے کی طرح ڈھونڈتے پھرنا تجھ کو روبرو ہو، تو نہ شکوہ نہ شکایت کرنا ایوب خاورنے اُردو شاعری کے اساتذہ کا احترام بھی ملحوظ رکھا ہے اور اپنے ہم عصروں سے بھی پہلو تہی نہیں کی ہے۔ دوسروں کی خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے لیکن اپنی انفرادیت کو کسی بھی صورت ترک نہیں کیا۔ ان کی منفرد پرتاثیر تمثال کاری اور ان کی نئی نئی سی بصری ایمجری کے سحر کی جھلک سے ذرا لطف لیجیے وہ کہتے ہیں۔ خواب کٹورے، سورج کی دہلیز پہ رکھ کر لوٹ آنے کی سوچ میں دن چڑھ جاتا ہے پھر دن کا پتھر شام کی چوٹی تک لانے کی ہمت باندھ کے بستر سے اُٹھ جاتا ہوں اور دفتر جانے سارے ضروری اورادھورے کام مکمل کرنے کی خواہش کو ناشتہ دان میں بھر کے گھرسے قدم باہر رکھتے ہی میں کہیں اور نکل جاتا ہوں راہ کہیں رہ جاتی ہے علامت و استعارہ وتشبیہ جو کہ شاعری کا جمال ہیں۔اس کی منفرد جلوہ گری ایوب خاور کے ہاں نئے انداز سے موجود ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں۔ اُتر رہے ہیں سر چشم، قافلوں کی طرح شکستہ خواب، تھکن،چاندنی کی لُو، تیراغم پھر ’’وہ درختوں سے الگ ہوجانے والی چھال جیسی آرزوؤں‘‘ اور ’’ آنکھوں میں کاجل کی طرح سجنے کی خواہش‘‘ کا ذکر بھی خاص اپنے ہی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ایوب خاور کی تراکیب بھی ان کی اپنی تعمیر و تخلیق کردہ ہیں۔ جو بہت پر معنی اور پرکشش ہیں۔مثلاًچندتراکیب اورمرکبات پیشِ خدمت ہیں۔ خطہ عمرِ معطل، عکسِ متروک، دیارِ رخ آئندہ، لوحِ مہتاب، صبحِ تحریر،دشتِشبِرزم، حجرئہ جاں،چشم منحرف، تہہ خانۂ عمر گزشتہ۔آنکھوں کے بھرے ساون پیالے،خنجربہ کف خامشی ،خوابِ مقفّل،سینۂ خواب ،خس وخاشاکِ آرزو، نوزائیدہ خوابچے،کچے پکے خوابچوں کاذائقہ، حسنِ منجمد،کتاب بدن،کم بخت محبت،صبحِ حرفِ خواب،بدنام تنہائی،ہَواکا ایڑیوں کے بل پر گھوم جانا،بارش کی ممتا،آئینے کا بحال ہونا،کفن پوش زمانے،شام کی ملگج،خواب شجر،جھوٹ کی کائی،رات کی گدڑی،نظر کشکول، سانس کی پھانس۔ ان کی شاعری میں سیکڑوں ایسی ترکیبیں اور مرکبات ہیں جوان کے ہم عصروں میں نہیں پائی جاتیں۔ تفکر ایوب خاور کی شاعری کی شان ہے جو انھیں نئی نئی راہیں سمجھاتا ہے۔وہ سوچ کے گنجلگ پن اور الجھاؤ کا شکار ہرگز نہیں ہیں بلکہ ان کا مثبت رویہ تو دھیرے دھیرے الجھنیں سلجھانے کے لیے سعئی مسلسل کا ہے۔ یہ کس نے مثل مہ ومہر، اپنی اپنی جگہ وصالِ و ہجر کو ان کے مدار میں رکھا دھاگوں کی طرح الجھ گیا ہے اک شخص مری برائیوں میں بلاشبہ ایوب خاور کی غزل کا مزاج رومانوی ہے لیکن وہ کسی دھندلے سے رنگین غبار میں گم سم نہیں ہوجاتے اور سدا اداسی کی دھند ہی میں لپٹے نہیں رہتے بلکہ حقائق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضبوط اور بلند لہجے میں بات کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ نہیں کہ صرف ہمیں راس آگئی دنیا ہماری زد سے نکل کر سنبھل گیا وہ بھی اور۔ ۔ ۔ جن کو حضور شاہ سے اذن سخن نہ مل سکا ایسے بھی کچھ گواہ تھے جرم وسزا کے درمیاں پاکستان بننے کے فوری بعد جنم لینے والی نسل کے شعرا کی اپنے وطن سے محبت اپنے پیش روؤں سے کسی طرح کم نہیں۔ اپنے عہد کی دانش اور حالات حاضرہ کے تقاضوں کا شعور ان کی شاعری کوحُبِ وطن کی مثالی گہرائی دیتے ہیں۔جب وہ بزرگوں کے دیکھے خواب کی کوئی مکمل اور حسین تعبیر نہیں پاتے تو تڑپ تڑپ اٹھتے ہیں۔ایسے ہی لمحے میں ایوب خاور علامہ اقبال کے سامنے اقراراورفریاد کرتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ ’ترے دیکھے ہوئے اک خواب کی قوہیں نہیں کھلتیں‘‘ پھر ایک اور نظم میں خدا سے دعا کرتے ہیں۔ سبھی تو سانس رو کے چپ کھڑے ہیں اورکتاب ذات کی سچائیوں کی رونمائی اتنی آساں کب رہی ہے ۔رب کعبہ ایک ایسا آئینہ دے دے کہ جس کو سامنے رکھیں تو تیری کبریائی رنگ فرما ہو۔اندھیرے کے پروںسے خوب چنتی ایک ایسی صبحِ فردا کو اشارہ ہو جو اپنی پلکیں کھولے اور ہماری سرزمیں سورج مکھی کا کھیت ہوجائے ایوب خاور کی ایسی ہی عام انداز سے ہٹ کر کہی باتیں،کرنیں بن کر آیندہ کے زمانوں کے پانیوں پر دور تک تیرتی جھلملاتی چلی جائیں گی۔ ۔ ۔ لیکن ابھی تو ایوب خاور کو بہت سے کام کرنا ہیں۔ اندھیرے میں سجھائی کچھ نہیں دیتا بس اک لَوہے لہو کی بوند کی مانند جس کی ٹمٹماہٹ میں یہ سارے خواب سایوں کی طرح سینے کی محرابوں سے لپٹے منتظر ہیں جیسے کوئی آکے اُن کے ہاتھ پاؤں کھول کرآزاد کردے گا مگر مجھ کو بہت سے کام کرنا ہیں کسی کے پاؤں کومٹی کے جوتوں سے چھڑانا ہے کسی کے حلق میں بوئی گئی پچھلی رتوں کی پیاس فصلیں کاٹنی ہیں اور کسی خاکستری تن پرکوئی پیراہنِ گل کھینچنا ہے اے اسیرانِ قفس اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو ۔آمین۔ |