|
ریاض شاہد منامہ ، بحرین حلقۂ ادب کا 9 واں بین الاقوامی مشاعرہ اللہ عزوجل نے تخلیقِ دُنیا کے بعدمختلف رنگ ونسل کے لوگ پیدا کرکے انہیں قوم و نسل میں تقسیم کردیا تاکہ اُن کی پہچان رہے اور اسی طرح سے انہیں مختلف زبانیں عطا کیں اور سمجھ اور طاقت عطا کی کہ ایک دوسرے کی بات کو سمجھ سکیں، اور آج کے دور میں ہر ملک میں بولنے والی زبانوں میں سے ایک زبان اس ملک کی قومی زبان کے طور پر متعارف ہے اسی طرح سے پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور دیارِ غیر میں بسنے والے ادباء، شاعر اپنی قومی زبان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ بحرین میں ’’حلقۂ ادب ‘‘ ادبی سرگرمیوں کی پہچان ہے اور اسی سلسلے میں پچھلے کئی سالوں سے تواتر سے ادبی محافل کا انعقاد اس تنظیم کا طرّۂ امتیاز ہے، اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے مورخہ 4 مارچ 2010 ء کو ریجنسی انٹرکونٹیننل میں 9ویں بین الاقوامی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں پاک وہند کے علاوہ خلیجی ممالک اور امریکہ سے بھی شعراء نے شرکت کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بامر مجبوری اسٹیج حُسنِ زن سے محروم رہا۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے قاری یاسر قمر الحسن نے کیا، مدحتِ مکی مدنی جناب صادق شادکے حصے میں آئی چیئرمین حلقہ ادب نے افتتاحی کلمات سے حاضرینِ محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دیارِ غیر میں اپنی زبان ہی اپنی پہچان ہے اور میں اپنے تمام رفقاء کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوں کہ جن کی شبانہ روز محنت سے آج کی تقریب کا انعقاد ممکن ہو سکا۔ننھی منی بچی آمنہ خان نے پھولوں کے گلدستوں سے مہمانِ خصوصی فضیلت مآب اکرام اللہ محسود سفیر اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مہمانانِ اعزار جناب ناصر اسماعیل اور جناب ساجد شیخ کو خوش آمدیدکہا ۔مہمانِ خصوصی فضیلت مآب اکرام اللہ محسود سفیر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ آج تمام دُنیا میں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے اور باالخصوص پاک وہند میں مسلمانوں کی پہچان ہے۔ اور مجھے نہایت خوشی ہے کہ ادبی ثقافت کی نگہبانی میں حلقۂ ادب اپنا بھر پور کردار ادا کر رہا ہے۔ تقریب کے دوران پاکستانی نژادمعروف سماجی کارکن، بحرین چیمبر آف کامرس کے بورڈ ممبر اور چیئرمین بحرین گولڈ اسمتھ کمیونٹی جناب ساجد شیخ کوبحرین میں امتیازی کارکردگی پر حلقۂ ادب کی جانب سے اعزازی شیلڈ بدست سفیرِاسلامی جمہوریہ پاکستان پیش کی گئی جس پر انہوں نے حلقۂ ادب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ مستقبل میں بھی وہ پاکستان کا جھنڈا بحرین کے جھنڈے کے ساتھ ساتھ بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ علاوہ ازیں حلقۂ ادب کے دو متخرک ترین ممبران جناب سجاد الرحمن اور محمد واجد خان اور سابق وائس چیئرمین محمد شفیق کو چیئرمین حلقۂ ادب نے تعریفی اسناد سے نوازا اور بحرین ادبی پشتو ٹولنہ کے صدر جناب حامد خان نے چیف کوآرڈینیٹر عبدالحق عارف کو ان کی ادبی سرگرمیوں پر شیلڈ عطا کی اور اسی طرح سے ایک اعزازی سند پشتو ادب ٹولنہ کے صدر کو حلقۂ ادب نے دی۔مشاعرے کی نظامت کے فرائض جناب سجاد الرحمن اور عبدالحق عارف نے ادا کئے۔ سب سے پہلے مقامی شعراء کو کلام کی دعوت دی گئی ہال میں موجود تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ سامعین نے دل کھول کر اچھے اور معیاری کلام پر شعراء کو داد دی ، کلامِ شعراء نذر قارئین ہے: محمد انور مائل جو مجھے دیتے رہے الزامِ عشق حُسن ان کا دیکھ کر حیراں ہوئے کیوں کہا غیروں سے تم نے حالِ دل تم بھی مائل کس قدر ناداں ہوئے ریاض شاہد ہم اپنی اپنی اناؤں کے سب اسیر ہوئے ذرا سی بات ہوئی خاندان بٹنے لگا دل تو شیشہ ہے جو ٹوٹے کا بکھر جائے گا آئنہ ایک سا رہتا نہیں تقسیم کے بعد عبدالحق عارف تھا انتظار پر آیا پلٹ کے تُو بھی نہیں مری نگاہ کو اب تیری جستجو بھی نہیں اسے کہو نہ کرے مان لاؤ لشکر پر مرے کمال سے واقف مرا عدو بھی نہیں محمد اشرف عاصم یہ ظلم و جبر نہیں آخری سنبھالا ہے ہمیں یقین ہے منظر بدلنے والا ہے ہزار ظلمتِ شب اپنے پاؤں پھیلائے دلوں کی
آگ سے اب چار سُو اُجالا ہے آثارِ قدیمہ ہیں ہمیں دیکھتے رہیئے ہم ایک عجوبہ ہیں ہمیں دیکھتے رہیئے پڑھیئے نہ ہمیں ، ہم کہ بوسیدہ سے اوراق اک ایسا صحیفہ ہیں، ہمیں دیکھتے رہیئے اپنے قد سے بڑا ہوتا نہیں کوئی انساں خود کو جو چھوٹا سمجھتا ہے بڑا ہوتا ہے لوگ تو صرف کتابوں کو پڑھا کرتے ہیں ہم وہ پڑھتے ہیں جو چہروں پہ لکھا ہوتا ہے اختر ملک دیکھو گے ہمیں روز مگر بات نہ ہوگی اک شہر میں رہ کر بھی ملاقات نہ ہو گی جو تم کو ابھی پوچھنا ہے پوچھ لو ورنہ کل شہر میں پھر رسمِ سوالات نہ ہوگی روز پھوٹے
ہوئے مقدر کو آزماتا ہوں شام سے پہلے روز ہستی کو بیچ کر اختر لوٹ آتا ہوں شام سے پہلے عمر عابدی اپنے غم کی باتیں بھولا اوروں کا غم بھول گیا غم سے چاہا جان چھڑاؤں غم ہی میری جان پڑا چمن کو اپنے چھوڑ کر جہاں گیا جدھر گیا کہیں سکوں نہ پا سکا ، ادھر گیا ، اُدھر گیا تلاشِ رزق میں ہی بس یہ عمر یوں گزر گئی جہاں بھی جو پڑا ملا وہاں پہ ہی اُتر گیا سہیل ثاقب کوئی کونپل کوئی پتہ تو نکل جانے دو میرے حصے کے شجر کو بھی تو پھل جانے دو روکنے سے کہیں رُکتے ہیں بھلا پروانے ان کی تقدیر میں جلنا ہے تو جل جانے دو جاتے ہوئے لوگوں سے حوالے نہیں مانگو تم ڈوبتے سُورج سے اُجالے نہیں مانگو جب قتل ہوا ہے تو سزا موت ہی ہو گی تم فیصلے منصف سے نرالے نہیں مانگو جناب راحت اندوری نے اپنے کلام سے لوگوں پر سحر طاری کردیا اور خوب داد سمیٹی، اور یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حاضرینِ محفل کے بار بار اصرار پر انہیں پانچ مرتبہ مائیک پر آنا پڑا۔ راحت اندوری کس نے دستک دی یہ دل پر کون ہے آپ تو اندر ہیں باہر کون ہے سُورج ، ستارے ، چاند ، مرے ساتھ میں رہے جب تک تمہارے ہاتھ مرے ہاتھ میں رہے شاخوں سے ٹُوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے کبھی مہک کر طرح ہم گلوں سے اُڑتے ہیں کبھی دھوئیں کی طرح پربتوں سے اُڑتے ہیں یہ قینچیاں ہمیں اُڑنے سے خاک روکیں گی کہ ہم پروں سے نہیں حوصلوں سے اُڑتے ہیں آخر میں صدرِ تقریب جناب انور مسعود نے اپنے صدارتی خطبے میں ’’حلقہ ادب ‘‘ کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا میں بحرین میں بارہا آچکا ہوں اور یہ بحرین والوں کی محبت ہے کہ ان کے بلاوے پر میرے پاس انکار کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ جناب انور مسعود نے اپنے سنجیدہ اور ظریفانہ اردو ۔پنجابی کلام سے لوگوں کے دل موہ لئے اور چہروں پر اداسیوں کی جگہ قہقہوں نے لے لی: انورمسعود آپ کی وِگ بھی یہاں رہ گئی بتیسی بھی اپنا سامان کسی روز اُٹھا لے جاؤ بزم میں بیٹھ کے مت دانت نکالو انور یوں نہ ہو دانت کی مانند نکالے جاؤ ٹالی ہیٹھ ملنے دا وعدہ اوہنے کیتا سی ٹالی جتھے دسّی سا سُو اوتھے تے کھجور اے ایہدے وِچ مینوں دسّو میرا کیہہ قصور اے مشقّت ہی کچھ ایسی تھی کہ اُس کو پسینے پر پسینہ آ رہا تھا عجب منظر تھا اک ہوٹل میں گورا چھری کانٹے سے پاپڑ کھا رہا تھا
|
|