|
فوقیہ مشتاق
آپ سے میرا رشتہ کیا ہے فوقیہ مشتاق یہ سندیسہ لےکےپُروائی گئی دور تک آواز رسوائی گئی سوچ پر پہرہ لگانےکےلِئے پاؤ ں میں زنجیر پہنائی گئی ہر نئے دن کا یہی حاصل رہا اک نئےوعدےپہ بہلائی گئی حیثیت کیا پوچھتےھو تم مری زندہ دیواروں میں ‘چنوائی گئی َحشر تک روئے گا مجھ پر آسماں ننگے سر دربار میں لائی گئی فوقیہ مشتاق ۳ ابھی ٹھہرو... ابھی ٹھہرو ابھی الفاظ نےمعنی نہیں پہنے ابھی تخمِ بصیرت سے کوئی پودا نہیں نکلا ابھی آنکھوں نے راتوں کی سیہ بختی نہیں دیکھی ابھی پہروں خلاوں میں مجھے تکنا نہیں آیا ابھی وحشت کا بادل دل کی وادی پر نہیں چھایا ابھی خوابوں خیالوں نے مرا رستہ نہیں دیکھا ابھی میرے بدن میں لَمس کی خواہش نہیں جاگی ابھی یہ کیسے کہہ دوں میں مجھے تم سے محبت ھے فوقیہ مشتاق انا کا ریشم ختم ہوتا نہ میری آنکھوں کا ریشم ایسے خواب سے پہلے ہی تعبیر مجھے مل جاتی مرے پیروں میں نہ زنجیر وفا ہوتی یوں نہ ترستیں مری باہیں کسی قربت کے لئے یوں نہ صدیوں کی تھکن چہرے پہ جمتی میرے میری راہوں میں بچھا ئے ہوئے پلکیں ہر دم شہر کا شہر تمنائی نظر آتا مجھے میری غیرت نے گوارا نہ کیا ورنہ میں اطلس و ریشم و کمخواب میں لپٹی ہوتی جاہ و منصب کے حسیں باب میں لکھی ہوتی فوقیہ مشتاق تروینی
مانگ جب سجائی
تھی تم نےاپنی دلہن کی
کتنی خاموشی ھےدل کے آنگن میں
رات گئےکل میرے گھر ہنگامہ تھا |